یا حسینؑ یا حسینؑ
آدھا ہے یا حسینؑ
کمیشہ ہم منائے گے
وہ حیرمؑ آ گیا ہے پھر
عذاب آنے سجائیں گے
کمیشہ ہم منائیں گے
حسینؑ حسینؑ حسینؑ
حسینؑ یا حسینؑ یا حسینؑ
حسینؑ حسینؑ
حسینؑ یا حسینؑ یا حسینؑ
مقدر سے ملے پھر
دل یہ روئیں گے رُلائیں گے
کمیشہ ہم منائے گے
حسینؑ حسینؑ حسینؑ
حسینؑ یا حسینؑ یا حسینؑ
حُسین حُسین حُسین نا حُسین نا حُسین
اداداروںْ اے فرش ام، پظاہرا انتظاری میں
کہ پُرْصہ دیں کون آتا ہے الکو پُرْصہ باری میں
انہیں یہ آس ہے کہ سارے باتمدار آئیں گے
ہمیشہ ہم منائیں گے
حسینؑ حسینؑ حسینؑ حسینؑ حسینؑ حسینؑ حسینؑ
علم دار حسینؑ کی وفاداری کا بطلہ کر
جلوسوں میں
ہمیشہ بھی ہے پرچم آباس رہرا کر
علم مظلوم کی مظلومیت کا ہم اتائیں گے
ہمیشہ ہم مجائیں گے
حسین حسین حسین یا حسین
حسین حسین حسین یا حسین
مدینے میں رکھی تھی ظلم کی
بنیاد
مدینہ میں رکھی تھی ظلم کی
برباد کس کس نے کیے تھے سیدوں کے گھر
کہا برباد کس کس نے
جہاں تک ساس ہے سینے میں سب کا بتائیں گے
ہمیشہ ہم مجائیں گے
ہمیشہ ہم مجائیں گے
ہمیشہ ہم مجائیں گے
حسین حسین حسین حسین یا حسین
حسین حسین حسین حسین یا حسین
جو دل کا نرم ہوگا ہم یہ
مظلوم ہوگا دو نبی کی آمین
سال کے دکھ درد سن کر رو پڑے گا وہ
ستم کیا کیا ہوئے شبیر پر جب ہم سنائیں گے
ہمیشہ ہم مجائیں گے
ہمیشہ ہم مجائیں گے
ہمیشہ ہم مجائیں گے
حسین حسین
حُسینؑ حُسینؑ آہ حُسینؑ آہ حُسینؑ
حُسینؑ حُسینؑ آہ حُسینؑ آہ حُسینؑ آہ حُسینؑ
اداداری کی تاطر سر بھی کٹتے ہوں تو کٹ جائیں
ہمارے جسم چاہے کتنے ہی ٹکڑوں میں بٹ جائیں
ہم اٹھتے رہیں گے کربلا ہم سے بھی جائیں گے
ہمیشہ ہم ملائیں گے
قمیشہ ہم ملائیں گے
حسین حسین حسین عنہ حسین
بڑا روئے تیس گھر کال ہو
چہرے
لیو ٹیس گھر کال ہو
چلا تھا پان کے بدلے ستم کا تیر اسگر پر
بیات پیاس اسگر ہم سبیلے بھی لگائیں گے
ہمیشہ ہم ملائیں گے
حسین حسین حسین یا حسین یا حسین
دری آشق
پور میں شامِ غریباتی جب آئے گی
عزاداروں کو یادِ حضرتِ زینبؑ رُنائے گی
سروں کو پیٹ کر سب عشق غربت پر بہائیں گے
ہمیشہ ہم ملائیں گے
حسینؑ...!
ہمارا ملا کے
اچھا دیکھل قطعہ کیا ہم نے بتانا ہے
کیا ہے حضرت زہرہ سے جو وعدہ نبانا ہے
بھلے کچھ اوہ صدفر سے عزا تو ہم بچائیں گے
ہمیشہ ہم بچائیں گے
حسینؑ حسینؑ حسینؑ حسینؑ یا حسینؑ
موسیقا