Nhạc sĩ: Abulftah Ibnfaiz | Lời: Abulftah Ibnfaiz
Lời đăng bởi: 86_15635588878_1671185229650
اے سباروز اے اطہر سے گزر ہو جو کبھی
رش کرنا میری جانب سے سلاموں کے گلاب
عرض کرنا بس داداب یہ اک دل کی کہیں
جب سرکنے لگے نظروں سے تکلف کہیں جا لے
کے جانا ہی پڑے گا تجھے یہ دل کا کول
جس کے ہر برگ میں غزا کی ہے بینی خوشبوں
جس کی ہر پاتی میں اقصا کی بسی ہے فریاد
جس کے ہر چاک میں ہے قدس کی عزمت کا رفو
بات یہ ہے کہ نہیں بات بنائے بنتی
لفظ ہونٹوں کی کشا کش میں پھٹے جاتے ہیں
خیر کہنا کہ حضور اصل میں کیسا یہ ہے
سر فروش آپ کی
امت کے کٹے جاتے ہیں
زبط ممکن نہیں لیکن ہے لبوں پر پہرے
پابزر جیرے ہر نالائے بی طاب حضور
پھر سیا پوش فلق نوح قناعے آقا
صنگریزوں میں پڑے دیکھ کے میں ہی طاب حضور
مترق ساہے ہر اکتار نفس پر پہ ہم بہبس عزیز تے پھر تن تنہ شہر جنوب
چتھڑے بکرے پھر اتلس پوشاکوں کے
پھر تہہ خاکی ہتارا جدیار گردوں
ارتن سرم حفاقوں سے
خمیدہ قامت کوئی پتہ نہیں باقی جو چبایا جائے
سرورا پیاس کا سورج سوان زی پر ساقیہ کو سر الطاف پلایا جائے
زہر لگتا ہے ہر
کلک میں تر ہاتھوں میں
پریت کھاتا ہوں وہ بچا جو نظر آتا ہے
شب ہوتا ہے خود اپنی ہی مسلمانی پر ایک قطرہ بھی گلے سے جو اتر جاتا ہے
شنر کے زیر تسلط گھر کے بوند حضور پیاس شمبیر کے متوال کو تڑپاتی ہے
بوک
فلاس
تڑپ کر
وطحی یرنو ہے موت ہر لیے زینع روپ میں آ جاتی ہے
کفش برداری رہ زن پہ رہ برنازا
بھیڑیاں امن کی اصناد لیے گومتا ہے
ارسل حد کے روا
دجلے خونہ بھر پارش ہنائیوں سے شہر طرف چھومتا ہے
شام رہین مقتل
قاسد موت ہے ہر صبح مبرتہ خلشیت
پھر ہے سنسان محلوں میں ہیولوں کا ہی راز
پھر تہے سنگ قضا دفن
گفتار و شنید
بیٹیا اہل حرم لاک سر راہ حضور
منصوب کیے جاتے ہیں
چاٹتے پھرتے منصف کف پائے قاتل
آہا نکلے تو یہاں ہوت سیے جاتے ہیں اک مہی ببر لہو بن کے برستا ہے مدام
گلہ باری ہے لہکتے ہوئے باغی چوپر ماپارے پگلتے ہوئے مقتل مقتل
پپڑیاں خون کیے لہکتہ بازے چوپر مرسیہ خواہے کسی گوھر حمیت پہ حضور
خواہ کے بسر آگ میں
جلسے ہوئے تن
لہکت در لہکت نواحے سر ریگ سہرا
حبس تازیر میں جل بجھ گیا انگار سخن
خون اور گوشت سڑکتی ہے مسلسل درتی
جام عرمان کے ہر گام ترقتے ہیں حضور
کتنے گلچے ہی تہیں دست بلائے آتش
کتنے گل پنجے سر سر میں پھڑکتے ہیں حضور
ہے تماشائی خدا یعنی کلاہو دستان
صوفیہ مازدی احوال میں رہتے ہیں مگن
بسلحت کے شہ سب اہل سیاست آقا
برپار سچلتے ہیں بچا کردامن
الغرض خوف کے منڈلاتے ہیں آسے بے حضور
آشیاں پر ہے بگولوں کی اجارہ داری مراقعے قلب و جگر سینہ و دامان حضور
تل بلادے ہیں حضور اب کے فرزرد یہاں اہل
توحید بنے بیٹھے ہیں انجان حضور
ایچ گرداب تہائیر کے دل کی ناؤں
روب تازیست کا سامان نظر آتا ہے
دیکھ کر ظلمت شب میں
یسی سکتی کرنے کوئی سورج میری آنکھوں میں اتر آتا ہے
تہائیر کے کچھ گوشوں سے چند دیوان لیے ہاتھ میں سر آئے ہیں
آپ کے دین کی حرمت کو بچانے آقا
لے کے مقتل میں پہاڑوں سجگر آئے ہیں
یہ ہے وہ انجمِ افلاکِ عظیمت جن کی گرد پا میں کئی کاکشاوں کا سراغ
یہ وہ جرک لہو حدر نہیں جاتا ہے لیکن ہر بوند نکلتی ہے تیلیر پہ چراغ
سو بے زربے نایا عجابازِ حضور
دڑکنے باتت پھرتے ہیں دلِ حستی میں
رکھ رہے ہیں برم اسلام کا سینہ تانے
بوک میں پیاس میں زخموں میں غمِ حستی میں
نوک پا پوش پر رکھتے ہیں اراہین فرن
غلاموں کا یہ مسئلہ ہے کہ کافی ہے کتاب
ڈالیے
ایک نظر روزنِ بطہا سے حضور
آتشِ نالو سے شب رنگ ہے ہونٹوں کے سراب
دشمنِ ملتو دی قدس تکہ
پوچھا گے
کانے کہاں تک یہ چلا جائے گا
سنہ کچلا گیا اس ناغ کا برواقے اگر
دریاقہ یہ مدینے میں بھی گس آئے گا
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật