یہ
ہیرہ کا
بڑا روی ڈونٹ کرای پکڑوں میں سارے جھوٹ میری تجھ پہنکا ہے
تیری جڑتی جوانی تیرے سیر کا نشاہ ہے میرا بڑتا بخار دیکھ گیر کی باہر
تیری ندانیہ ستادی ہے
سن یہ کالم کچھ کہنا چاہتی ہے
راتوں کو بیٹھوں اکثر تنہا میں
تبھی فضائے گنگوناتی ہے
رضا میں میری چھپی تیری مسکانے ہیں
دل ٹوٹے گا پھر سے عیش ایک پیغام ہے
منظر سوہانا لگتا ہے جب ہو سب ساتھ میں
لکھک مسافر تنہا کیسا انصاف ہے
میں لکھک دیوانا لکھو سوہانا
جو ٹوٹا سنا دوں میں دل کا کرانا
ہر ایک فصانہ میں لکھتا ہی جاؤں گا دل کی زبان ہے
ایک ہی ہے دل میں نہ باتو مکان میں نہ باتو
لیکن جو کافی تھے میں نے فصانے یہ کیسے بتا تا تجھے
پڑے ہیں پیچھے زکم کے نشانے یہ دل پھر بچا تا تجھے
کوشش تھی میری تھی مولد تو کافی پر کیسے بچا تا تجھے
گھومے تو باہوں میں گیروں کی گیروں میں کیسے سنا تا تجھے
جو شکوے ہزارہ تم دیکھتے بزاروں میں ہو جاتی عیرشاں موجہ نظاروں سے
بہترین راتوں کو چاند کی آتے نظر دبے
کیوں تیری باؤں کے جانی یہ کیسا گناہ مجھے
پتا نہ میں نے کہا ہر دفعہ تجھے لگانا
رشتوں کے چہرے بدلتے بھی دیکھے پر دیکھا جو
نہ تھا وہ وفا کا زمانہ زمانہ کافی حسین نہ
کرے خدا کی توہین نہ رکھے صبح پہ شکن چودہ
بھی دے تو وہ کافی رنگین بکتا یہاں بھی زمین لکھتا یہاں ہر فقیر محبت
تو محلو میں لپتی ہوئی دولتی ہر در کی چھاٹے زمین نہ آتی خبر
کہاں ہے سکون میں ہوں کس دگر نہ پاتا میں ڈونڈ ہے تو
ہر ذکر کا پہلا سوال کیوں خود کو سمال نہ پاتی ہے تو
کیا چاہتی ہے تو کیا چاہتی ہے تو
ہر قصے میں اب کیسے آتی ہے تو
ہم آنا مشہوری ہے سب کی ہی چاہت پر کیسے ان سب کو لپاتی ہے تو