آہ ایک بار جو تیبہ کی
گلیوں سے گزر جاتے
ایک بار جو تیبہ کی
گلیوں سے گزر جاتے
نئی نات ہے توجہ بھی نہیں چاہیے
اس وقت پانچ سال پہلے کا کلام چھڑو تو پھر تو آپ بولیں گے
شاعر بندہ ہو میری طبیعت کچھ ایسی ہے
کوشش کرتا ہوں کچھ نیا آپ کو سنا دوں
ایک بار جو تیبہ کی گلیوں سے گزر جاتے پھر کیا ہوتا
ہم لوگ برحمت کے
دریا میں اتر جاتے
ایک بار
جو تیبہ کی گلیوں سے گزر جاتے
پھر میرے بھائی نے کہا تھا نا کہ بچہ رو
رو کے دیکھ رہا تھا گمبہ دی خضرہ کی طرف
ساری اوفریٹ ٹھکرا دی کہا اگر پاکستان
میں گمبہ دی خضرہ ہے تو مجھے لے چلے
یہی اس کا لبے لباب تھا نا
جو لوگ مدینے سے آئے ہیں وہ کہتے ہیں
جو لوگ
مدینے سے آئے ہیں وہ کہتے ہیں
اے
کاش محمد کی
شوکھٹ پہ ہی مر جاتے
شبیر تو کہتے تھے جو چاہے چلا جائے
سب اہلِ
مودت تھے پھر
کیسے وہ گھر جاتے
جو لوگ محمد سے
کرتے جو وفا حاکم
پھر نوکے سنا پر یوں
نہ شام کو سر جاتے