صوفیہ بے جہاں
مگر دل تھا تیرا
تجھ سے جودا ہو کر میں کچھ نئی راہ چونی
پر تیرے خوابوں کا سیا میرے ساتھ چلتا ہے
اس نئے شہر میں اس نئے جہاں میں
کسی اور کی باہوں میں میں کھویا کھویا ہوں
پر پھر بھی کبھی تو آنکھوں میں آتا ہے
جیسے کوئی پرانی دھوپ جو دل کو جلتا ہے
میں نے چاہاں دور جاؤں
نئی زندگی
بساؤں پر تیرے بنا میرا دل کچھ بھی نہیں پہتا ہے
دور سے چاہاں کسی اور کو
اپنایا پر تیرے ہی
خوابوں سے میں کبھی نہ اترا پایا
تجھ سے دور رہ کر بھی میں تجھ کو جاتی ہوں
کیا کہوں دل کی بات میں اب کہاں جاؤں
نئی باتیں نئے راستے پر سب ہے بیکار
تیرے بنا ہر خوشی لگتی ہے عدس اور بیکار
وہ پہلے جیسے نئی دل
میرا کچھ ٹوٹ جایا
جو چاہا تھا کبھی تو اب وہ خواب کھو گیا
تیرے بنا میں
نئے پیار میں دوبی ہوں
مجھے معاف کر دے جو
تجھے چھوڑا آیا
پر میری زندگی میں اب نئے خوابوں کا سہارا چاہیے
دور سے چاہا
اسی اور کو اپنایا پر تیرے ہی خوابوں سے میں کبھی نہ اترا پایا
کس کو شاکر کیا کہوں دل کی بات میں اب کہا جاؤں سوپی نور چاہا
مگر دل تھا تیرا پھر بھی میں چلتی رہی نئی منزلوں کی طرف
02:48