پہنچے یہاں تک لڑکے لڑکے حلات سے
راتے جو سویا نہیں کوئی ان کا حساب دے
کلم جو ہاتھ میں تو پنے ہوئے راکھ
ساتھ چلنے والوں نے ہی بدلے اپنے راستے
کل کی ہی بات تھی یہ لڑکے ہوتے عامتیں
بدلہ وقت اتنے نام سارے ہی اب جانتے
حال ہی میں مل چکے تے دھوکے مجھ کو روز
اکیلا ہو چکا تا بس کل آتی میرے ساتھ
میں تو جن تے بھی سوال کر کلا میری جواب
دے تنہا جو کبھی بیٹھا میں خدا سے کرتا
رابطے دغا دینے والوں سے خدا میرا تو حساب لے ہیں آنکھوں میں چمک ملے
اندھیروں میں بھی راستے یہ سر کبھی جھکے
نہ پھلے تو در سے کاٹ دے میں نسل جان لیتا
مل کے پہلی ملکات پیتے ہستے والے بہت
اب سب ہی مجھے دات دے میں بسم کر کے بیٹا
کافی دشمنوں کے کافلے میں بندہ لایا گیموں میں
بندہ نکلے دو گلا سامنے میرا بھائی بن کے پیچھے میرے بھاکتا
شامل ہی جڑو کی فوجوں میں وہ میرے خوف سے کام ان کا پیٹ پیچھے
چھوڑا گھوپنا ان چوٹیوں سے زیادہ عزت ملتی
مجھ کو گیم میں یہ گیم میرا ساتھی پھر بھی دشمنی ہے
دو گلی ہے دنیا یہ ساری
کون ہے بھروسے کے قابل
اپنے ہی کرتے غداری
وفا سے ہو گئے ہیں غافل
دو گلی ہے دنیا یہ ساری
کون ہے بھروسے کے قابل اپنے ہی کرتے غداری وفا سے ہو گئے ہیں غافل
راتور
اب باری ہماری اپنے کافی باری اپنے یوں ہے باری کے حرامی دنیا داری
کری جب خواری ہر گولا نکلا کھوتا نہ کرو نہ راپ بیٹا تم سے نہیں ہوتا
کل کے بچے کچھے سارے باب بنے ہمارے موں
میں سب کے لے کے لے کے برتے ہیں سہارے
اب بھی بیٹھے بچوں بارے تو کر لو کھل کے ایش
کھومے گی یہ کھوپڑی لگیں گے سب کی نارے
آگے بڑھتے رہتا ہے یہ بھائی آپ کا رکھتا نہ
اپنے دم پہ کرتا جو بھی کرتا کبھی جھپتا نہ
لفظہ شفلا مکتا نہ
کیا لفظہ مکتا نہ
راپ توڑ کا گھستا نہ تو بم تمارا دھکتا نہ
کرتا نہ غرور میں انظام ایک جیسا
لیتا میں سبک کے فراندھ لاش بن کے لیٹا
جو کہتا مو پہ کہتا باپ بن کے بیٹھا
ریپ کا سرور چوئیس گھنٹے یہاں پہ رہتا
سالہ سارا زندگی پاک کے نام کر دیا پھل
لوگ ابھی بھی راپ دھرک سمجھ نہ پائے
میں بندہ موالی میں دے دیتا گالی میں ایک نمبر بندہ نہ تیرے سجالی
یہ کوٹ کرفٹیٹ بھی جانا ہوگا یہ خالی ریپ میں نشا میرے جیسے کوالی
تم تھالی کے بیگن میں بیگن کی تھالی تم ریپ نہیں کرتے تم کرتے جو گالی
خدا کا شکر میں نے عزت کمالی
تم جلتے رہے میں نے تو بیس بنا لی
دوڑی ہے دنیا یہ ساری
کون ہے بھروسے کے قابل
اپنے ہی کرتے غداری
وفاء سے ہو گئے ہیں غافل
دوڑی ہے دنیا یہ ساری
کون ہے بھروسے کے قابل
اپنے ہی کرتے غداری
وفا سے ہو گئے ہیں غافل