کیا ہے
وقت یہ
کیا مجبوریاں
ہے کس کو پتا جانا کہاں
نہ
راہے کوئی اب
لوٹے کہاں جو خویا اسے پانا کہاں
کہاں
جیسے کی ساسوں کا احسان تھا
جسموں پہ جان کا
الزام تھا
ہم رہے یا رہے گی داستا
ہم رہے یا رہے
گی داستا
مر جاتے ہیں
انسان اگر
جذبات کہاں مرتے ہیں
آنا
آساں نہیں
لیتے سفر
کرتے ہیں
کھوے اپنے پوٹے سپنے
سب تجھ پہ وار دیے
مٹنا وطن پہ جو حرمان تھا اب ڈر ہمیں کیا ہے انجام کا
ہم رہے یا رہے گی داستا
ہم رہے
یا رہے گی داستا