ماہول ہے بزاری بیمار ہے بوہاری
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
خون میں سلخ کوا کافی لاسالار کی ہے
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
جس نے سجاد کی آنکھوں سے ہے خون جاری کیا
جس نے سجاد کی آنکھوں سے ہے خون جاری کیا
بات ساری وہ فقط شام کے بازار کی ہے
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
داستان درد بری
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
عابد بیمار کی ہے
جس کے ٹکڑے ہیں بھرے دشت کی جولی میں پڑے
جس کے ٹکڑے ہیں بھرے دشت کی جولی میں پڑے
یہ تو تصویر اسی خون کے سردار کی ہے
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
جس کی حیبت سے لرز اٹھتے تھے یہ دونوں جہاں
جس کی حیبت سے لرز اٹھتے تھے یہ دونوں جہاں
جس کی حیبت سے لرز اٹھتے تھے یہ دونوں جہاں
بی بسی آج اسی غاز علمدار کی ہے
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
کیوں نہ بھائی کو یہاں بیٹھ کے میں یاد کروں
کیوں نہ بھائی کو یہاں بیٹھ کے میں یاد کروں
یہ جگہ میرے چچا جعفر تیار کی ہے
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
اب تو آنا ہے انہیں کغفر مطانے کے لئے
اب تو آنا ہے انہیں کغفر مطانے کے لئے
متزرد بندی کی کوئی بہن درس پوری ط制
پھر دنیا سبھی بارہویں سرکار کی ہے
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
اپنے قاتل کو بھی مشروب عطا کان کرے
اپنے قاتل کو بھی مشروب عطا کان کرے
یہ بلندی تو امیر
امیر
حیدرِ قرار کی ہے
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
خون میں سلخ کوا
خون میں سلخ کوا
کوا
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
داستان درد بری عابد بیمار کی ہے
محاض ہے بزاری بیمار ہے وہانی
محاض ہے بزاری بیمار ہے وہانی
بیمار ہے مہاری