سن لے عالم کی ستا
دیر نہ ہو جائے کہیں
چھوڑ دے کبرو جفا
دیر نہ ہو جائے کہیں
ہم کے مردودِ حرم اہلِ صفا سچے ہیں
ہم کو مسند پہ بٹھا
دیر نہ ہو جائے کہیں
دیر نہ ہو جائے کہیں
دیر نہ ہو جائے کہیں
تیرگی آج تیرے دن کے اجالوں میں چھپے
سارے پردوں کو لٹا دیر نہ ہو جائے کہیں
یہ چمیلی یہ گلاب اور خزاوں کا عطاب
اب بہاروں کو بلا دیر نہ ہو جائے کہیں
میرے میٹی میں چھپا سونا میرا رہنے دے
خیر کو گھر سے بھگا
دیر نہ ہو جائے کہیں
دیر نہ
ہو جائے کہیں
چھوڑ دے جبرو ستم اور لگا سینے سے خیر تو حلم و وفا
دیر نہ ہو جائے کہیں
تیری حشمت تو غریبوں کی عطا ہے جعوید دے غریبوں کو دعا
دیر نہ ہو جائے کہیں
دیر نہ
ہو جائے کہیں