تُم
سُلجھے سے میں اُلجھی سی
بِجلی کے تارے چھنگاری ہوئی
ایسی
آگ لگی
چکا چون
روشنی
جب آگ بجھی
دھویں میں
لٹی راکھ ہوئی تم
سیدھے سادھے میں تیڑی میڑی
ریل کی پٹری کیسے ٹکری
ہوایں جو چلی روح کو راحت ملی
جب ہوایں رکھی
جسم میں جیسے جانا بچھی
کیسی بھول بھلائیا تیرے دل کا دریاں
سمندر سے بھی گہراں پاہوں میں پس کود جاؤں
کیسی بھول بھلائیا آگ کا یہ دریاں