بے مطلب ہوئی ہماری زندگی
بے مطلب ہوئی ہے ساری بندگی
کی میں سمجھا ماں تین اشکے دا روگ میں نوں
کی میں سمجھا ماں تین اشکے دا روگ میں نوں
زہمت ہی صحیح کیا ایسی بے روخی
مجھ کو ایسی نہ سزا دے
اپنے بین جینا سکھا دے
یادیں ساری پل میں جلا دے
کھویا ہوں میں گھر کا پتا دے
ہجر کے یہ پل گزرنے کو راضی نہیں
دل میں بے دلی ہے بے چینی کھاتی رہی
خوشبویں ہیں تیری نظر کیوں تو آتی نہیں
دل کے باغ میں اب کوئلیں بھی گاتی نہیں
تیرے پیچھے میں دیوانا ایک زمانے سے
ایک زمانہ مجھ پہ گزرا تیرے جانے سے
روانی نہیں ہے سانس میں ڈوبا ہوں جیسے پانی میں
مجھے شور نہیں چاہیے گہرائیوں میں جانے دے
اب مجھ پہ جو گزر رہی
تمہیں تو کوئی خبر نہیں
تیرے طریقے ہی کریں بے نکاب تجھے
دلیں بے تاب کریں بے زار مجھے
دل اب بنجر کوئی زندہ شجر نہیں
چند یار ہی اب دکھیں میرے ساتھ مجھے
پڑھیں ذہن میرا سمجھ کے کتاب مجھے
کہتی ہے مجھے بس جی اور آپ تم
پہاڑوں کے بیٹھ چھپا ایک طلاب تم
میری محفلوں کی رونک اور عداب تم
اگر میں موسیقی ہوں تو پھر رباب تم
اب تو بھی ہے اکیلی این آ نو
تیری کل ملا کے سہیلیاں دو
فیک سمائل بر تا پلین سٹل شوز
تو چھپ رہے وے یو کل لیٹ اے گو
بے کراری ہے
بے کراری ہے
رات بھاری ہے
جین نہ ملے کہیں پل بھر
روگ یہ تیرا
ہم پہ تاری ہے
چھا رہی ہے دل میں
ہل چل
دیکھا میں تیری آرامہ
اٹھ دے کیوں ڈگدا جاما
دیکھا میں تیری آرامہ
تیرے بل میں ٹردا جاما
بے مت لبو
ہوئی
ہماری
پے خودی
مجھ کو ایسی
نہ سزا دے
اپنے
بین جینا سکھا دے
یادیں ساری پل میں
جلا دے
کھویا ہوں
میں گھر کا پتا دے
ہجر کے یہ پل
گزرنے کو راضی نہیں
دل میں
بدلی آ بی چینی کھاتی رہی
خوشبویں ہیں تیری نظر کیوں تو آتی نہیں
دل کے باغ میں اب کوئے لیوی گاتی نہیں
ہجر کے یہ پل
گزرنے کو راضی نہیں
دل میں
یہ بے چینی کھاتی رہی
خوشبویں ہیں تیری نظر کیوں تو آتی نہیں
دل کے باغ میں اب کوئے لیویڈ
حجر کے ساری پل میں جلادے
کھویا ہوں میں گھر کا پتا دے