بلال اُنہ بھی کمانی گی
شفال أن جاوی جنہDrive
میرے خدا میرے لاج رکھنا
بات گرد گرد پہلے والے اونا راہتی کر بھا
نہ کہیں سے دور مہزلے
وہاں فاصلوں کی زیادتی سے قنایتوں میں کمی نہیں
کوئی دور رہ کے قویس ہے
کوئی پاس رہ کے بلال
نہ کہیں سے دور مہزلے نہ کوئی خرید
کھڑ پانو ہے
بات کیا ہے
نہ کہیں سے دور مہزلے
نہ کوئی قریب کی بات رہ
جسے چاہے اس کو نواز دے
وہ خدا نہیں وہ خدا نہیں وہ مگر خدا سے جدا نہیں
یہ محبت حبیب کی بات ہے
تجھے اے منورِ بینواں درشاں سے چاہیے اور کیا
تجھے اے منورِ بینواں درشاں سے چاہیے اور کیا
جو نصیب ہو
کبھی سامنا
یہ بڑے نصیب کی بات ہے
وہ مچل کے
راہ میں رہ گئی
وہ مچل
کے
راہ میں رہ گئی
یہ تڑپ کے در سے لپٹ گئی
وہ مچل کے راہ میں رہ گئی
یہ تڑپ کے در سے لپٹ گئی وہ کسی امیر کی آہ تھی
جو راہ میں مچل کے رہ گئی وہ کسی امیر کی آہ تھی
جو در سے لپٹ گئی یہ کسی غریب کی وعدہ
ہے دن ہے بخن مل الاولا ورحه مالک أو الارض
ایک ایسی آنکھ ہے جو اپنے ظاہر کو نہیں دیکھتے ہیں
اس کے سامنے جو ہوتا ہے اس کو بھی دیکھتے ہیں
یہ غائب کو دیکھتے ہیں
وہ کہیں اور ہوتی ہے اس کی جس کو کچھ اور ہوتی ہے
وہ سوچتی ہے
جو اس کے لئے غائب ہے
وہ اس کو سوچتی ہے
یہ ایک اکمہ
اور عشق یہ ہے نام ہے استراب کا
عشق کہتے ہیں حضوری
عشق میں حضوری ہے
اور
اکم
جس جو میں ہے
اکبال نے کہا نا کہ تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
اکل غیاب و جس جو عشق حضور و استراب
اکل اور عشق دو مختلف چیزیں ہوتی ہیں
لیکن فیض دینے والی ذات اسی قریب آقا کی
تیری نگاہ ناز سے
دونوں مراد پا گئے
اللہ اکبر پھر پڑھتے ہیں
تیرے حسن سے
تیری شان تک ہے نگاہ اکل کا فاصلہ
یہ ذرا بڑی بڑھتا ذکر ہے وہ ذرا قریب کی بات ہے