سنو شاداب نے یہ کربلا کا واقعہ لکھا
بیاں ہے مومنوں محمد کی شہادت کا
سنو شاداب نے یہ کربلا کا واقعہ لکھا
بیاں ہے مومنوں محمد کی شہادت کا
یزیدی فوج تھی بائیس ہزار اور یہ بہتر تھے
سر و سامان ان پہ بہت سارے اور نہ لشکر تھے
بھایانک جنگ ہے لو کربلا میں مومنوں جاری
کوئی بھی ڈر نہیں ان کو نہ کوئی اپ ہے تاری
کہا زینب نے یہ شبیر سے کہ سن لو اے بھائی
گزارش کر رہی ہے بھائی اے بھائی یہ ماجائی
ہے جس حالت میں ہم ہیں بھائی سب کچھ مانتی ہوں میں
گزر جس راہ سے اب ہو رہا ہے جانتی ہوں میں
کئی دن ہو گئے ہم کو نہ کھانا ہے نہ پانی ہے
مگر اے بھائی رب العالم کی مہربانی ہے
میرے بھائیا مگر کچھ آپ سے تو مانگتی ہوں میں
مجھے خالی نہیں لوٹاؤگے یہ جانتی ہوں میں
سخاوت ہے ہمارے گھر سے ہی یہ بھائی جان جاری
جو سائل کھالی جھولی لایا ہے اس کی بھری جھولی
سنا جو بہن سے شبیر نے تو اپنے لب کھولے
کہا کیا مانگتی ہو مانگ لو اس طرح سے بولے
یہ مانا بھونکے پیاسے ہیں کئی دن کے مگر سن لو
میری ہمشیرہ تم کو چاہیے کیا اپنے لب کھولو
جو مانگو گی ملے گا تم کو ہے درکہ میں بیٹا ہوں
سخاوت جن کے گھر سے جاری ہے میں ان کا بیٹا ہوں
میں جن کا بیٹا ہوں اے بہن تم بھی ان کی بیٹی ہو
کہو بے خوف ہو کے مجھ سے جو بھی چاہیے تم کو
مجھے خالی نہ سمجھو بہن میرے پاس سب کچھ ہے
ہمارے ساتھ ہے اللہ محمد ہم پہ سب کچھ ہے
سنا زینب نے یہ شبیر سے تو اس طرح بولی میری
جھولی ہے خالی بھائی تم بھر دو میری جھولی
کہا شبیر نے جو مانگنا ہو بہن تم مانگو
اور مانگو بے جھجک اے بہن دل میں تم نہ شرماؤ
سنو اے مومن و ہمشیر نے بھائی سے کیا مانگا
گزارش ہے میری اے سامنی تم غور فرمانا
کہا زینب نے بچوں کو میرے رن کی رضا دے دو
فیدا ہو جائیں یہ تین محمد پر دعا دے دو
سنا شبیر نے زینب سے تو آنسو نکل آئے
نہ ہوگا بہن میرے بھانجے یہ دونوں مر جائیں
یہ ننھے پھول ہیں جس باغ کے وہ نہ اجڑ جائیں
میں چاہتا ہوں ترقی بہن میری اور وہ پائیں
بہن میری تجھے گلشن کو اپنے پر بڑھانا ہے
میری ہمشیر گلشن کو تجھے اپنے چلانا ہے
بہن میری میں بچوں کو اجازت دے نہیں سکتا
میں تجھ سے تیرے بچوں کو جدا بھی کر نہیں سکتا
تو زینب نے اشارہ کر کے بچوں کو بلبایا
تو بچے آئے فورا اور مامو سے یہ بتلایا
اے مامو جان ہم کو دو اجازت رن میں جانے کی
نہ کرنا ہم سے تم امید مامو لوٹ آنے کی
یہ تلواریں ہماری دیکھو مامو ہم نے چانڈی ہیں
یہ تلواریں ہیں اصلی دیکھ لو مامو نہ نقلی ہیں
پہنچ کے رن میں ہم اے مامو سب کو مار ڈالیں گے
یزیدی فوج کو اے مامو دنیا سے مٹا دیں گے
کوئی بھی فقر مامو دل میں اپنے تم نہیں کیجے
ہمیں تم رن میں جانے کی اجازت اب ذرا دیجے
علی کے ہم نواسے اور زینب کے دولارے ہیں
جو سب نبیوں کے ہیں سردار وہ نانا ہمارے ہیں
ہم اپنے نانا کے اب دین کو جا کر بچائیں گے
یزیدی فوج کی ہم گردنے جا کر اڑائیں گے
غرض بچوں نے مامو جان کو اب کر دیا راضی
تو ان کے مامو نے جانے کی ان کو پھر رضا دے دی
تو اپنے بچوں کو زینب نے پھر تو خوب سمجھایا
کہ رن میں لڑتے ہیں کیسے یہ بچوں کو ہے بتلایا
پھر اس نے بچوں کے سوخے ہوئے بالوں کو سلجھایا
پھر اس نے اپنے بچوں کے لبو رخصار کو چوما
لگایا سرما آنکھوں میں سجایا بچوں کو ایسا
نظر آنے لگے ایسے کہ جیسے کوئی ہو دولار
پھر اپنے بچوں کو زینب نے اپنے سینے چھپتایا
اور اپنے بچوں سے زینب نے پھر تو رو کے فرمایا
میرے بچو تمہیں دین محمد کو بچانا ہے
میرے بچو سنو دشمن کو دنیا سے مٹانا ہے
کہا امیؑ ذرا بھی فکر اپنے دل میں نہ لاؤ
خدا حافظ ہے اے امیؑ ہمیں جلدی سے جانے دو
غرض یہ دونوں بھائی رن میں آخر پہنچ جاتے ہیں
کوئی رن جو علم وہ دل میں اپنے تو نہ لاتے ہیں
کہا یہ شمر نے شب بیر سے کہ یہ تو بتلاؤ
جب آں کوئی نہیں ہے کیا تمہارے پاس سمجھاؤ
کہا یہ شمر نے بچوں سے کہ تم لڑنا پاؤگے
ذرا ٹھہرو اے بچو گردن اپنی کٹاؤگے
یہ سنکے بچے بولے شمر سے کہ غلط ہے تیری
مقابل آئے جو ٹکڑے کرے تلوار یہ میری
بڑے بے رحم تھے اس کے سفاہی بچوں کو چھپتے
لائینوں نے کیے بے رحمی سے بچوں کے دو ٹکڑے
کہا پھر شمر نے شب بیر سے لے جاؤ بچوں کو
کوئی باقی راہ ہو تو اسے بھی جلدی سے بھیجو
گئے شب بیر دونوں بھان جو کے لاشے لے آئے
مگر ان جو علم سے مومنوں بالکل نہ گھبرائے
جو لاشے دیکھے زینبؑ نے تو بے ہوشی ہوئی تاری
سبھی کی آنکھوں سے خیموں میں آنسو ہو گئے جاری
ذرا پچھ سوچیے اس وقت کا منظر وہ کیا ہوگا
سنے گا دھیان سے جو بلیطی انسان وہ روگا
بہت رنجو علم کا مومنوں کربل میں منظر تھا
ہر ایک چھوٹے بڑے کے حلق پہ اے لوگو خنجر تھا
مگر وہ ہستے ہستے دین پہ اپنے سر کٹاتے ہیں
رسول پاکؑ کا وہ دین کربل میں بچاتے ہیں
اب آیا ہوش زینبؑ کو تو یوں شب بیر سے بولی
میری کھالی تھی جھولی تم نے تو میری بھری جھولی
زمانے والوں کی آنکھوں کو عشقوں سے ذرا بھر دو
میرے بھائیا تم اپنے بھانجو کو اب دفن کر دو
لکھی شاداب نے یہ داستہ تم نے سنی ہے جو
وہ منظر کربلا کا کیسا ہوگا یہ ذرا سوچو