سن لیجے فیض داستان یہ اپنے وطن کی
سن لیجے فیض
داستان یہ اپنے وطن کی
ایک ساہکار شخص کی اندے کی دولن کی
سن لیجے فیض داستان یہ اپنے وطن کی
ایک ساہکار شخص کی اندے کی دولن کی
ایک گاؤں کا ہے قصہ یہ بے حد عجیب تھا
اس گاؤں میں ایک آدمی رہتا غریب تھا
اقرار اُس کا نام تھا پی کا شراب تھا
بدحالیوں میں تھا گھرا کھانا خراب تھا
جو بھی کماتا اُس کو اُڑا تھا شراب میں
لگتا تھا جیسے وہ گھرا ہو ایک عذاب میں
بیوی تھی اُس کی نیت کیا کرتی کام کی
ہر وقت مالا جب تھی وہ شوہر کے نام کی
شوہر کی اپنے دل سے طرف دار تھی بیوی
کرتی وفا تھی اُس پہ وفادار تھی بیوی
بیٹی تھی اُس کی ایک تھی بے حد وہ لادلی
انجم تھا اُس کا نام کی لڑکی بہت بھلی
سمجھا تھی اپنے باپ کو پرمانتا نہ تھا
حالات بھری کہ کیسے ہے وہ دیدتا نہ تھا
عادت سے اپنے باپ کی بے حد وہ تنگ تھی
عادت سے اپنے باپ کی بے حد وہ تنگ تھی
ہر وقت گھر میں اُس کے چھڑی رہتی جنگ تھی
ہر وقت گھر میں اُس کے چھڑی رہتی جنگ تھی
اقرار کے ہی گاؤں میں اتساہ کار تھا
اُس کا اُسی کے ساتھ میں چلتا ادھار تھا
لیتا بہت بیانتھا کرتا تھا وہ دکھی
اُس نے عذاب لوگوں کی کر دی تھی زندگی
وہ تو ابھی جوان تھا شادی شدا نہ تھا
سان ساری بستی میں اُس سے پُران تھا
اقراری بھی قرضے میں بہت اُس کے دب گیا
جو کچھ تھا سب بیانتھ میں اُس کا تو اب گیا
کتنی رقم اُدھار لی اتنی بنی رہی
کھوڑی سی جو زمین تھی وہ بھی تو بک گئی
اقراری دے نہ پاتا جو اُس کا بیعاز تھا
اُس کو پکڑ کے کرتا وہ گالی
گلوج تھا
بی بی بھی پریشان تھی بیٹی بھی پریشان
پہتی رہتے آنکھوں سے آنسو بہت روان
اقراری کو وہ کری زیاں اب کری تھا تنگ تھا
کرتا بُرا سلوک بہت اُس کے سنگ تھا
ایک بار ساہو کاری وہ بھر اس کے آ گیا
انجم کا حسن دیکھ کے چکھ کری وہ کھا گیا
اس کے اب تو ارادے بدل گئے
چکچا پھستاو کاری وہ
باپس چلا گیا
آیا
تپیسے مانگنے کچھ بھی نہیں کہا
جب شام ہو گئی تھی تو بھیجا تھا آدمی
اطراری بھی چلا گیا سنگ میں خوشی خوشی
پہلے تو ساہو کاری نے اس کو تھا بٹایا
بوتل وہ پھر شراب کی لے کر ہی وہاں آیا
اطراری جتنی پی سکا اتنی پلائی تھی
جو تیلب پہ باتی وہ اس نے بتائی تھی
جو بھی ہے میرا پیسہ نہیں فکر کچھ کرو
ایک رات اپنی بیٹی میرے پاس بھیج دو
پھر قرضہ مانگنے کو کبھی گھر نہ آنگا
جتنی
پیوگے روز میں تم کو پلاؤں گا
بیٹی کی بات آئی تو چہرہ اتر گیا
کولا تھا اس کا کھون وہ بصے سے بھر گیا
جو پیرہ کی شراب تھی اتنی اتر گئی
تقلیب اس کے دل پہ تو بے حد گزر گئی
مجھ بور تھا اقراری وہ کچھ بھی نہ کہ سکا
اک دم اٹھا وہاں سے وہ بھر اپنے آ گیا
بی بی کو آنکھ باتی اس نے بتائی تھی
آنکھوں میں عشق آئے حیاء اس کو آئی تھی
دن دوسرا جو گزر تو آیا وہ کر دیا
آتے ہی روب پیسو کا اس نے دکھا دیا
پھر پڑھ گئی تھی اس کی تو انجم پہ اب نظری
وہ اس کی طرف بڑھ گیا ہو کر کے اب نیڈر
چاہتے ہی اس نے فکر لیا
باہوں میں اس نے دوڑ کے اس کو جکڑ لیا
ماں نے جو دیکھا تو بہت غصے میں آ گئی
ماں نے جو دیکھا تو بہت غصے میں آ گئی
بہت غصے میں آ گئی بہت غصے میں آ گئی
مرچ کی چند سے وہ آنکھوں میں ڈال دی
مرچ کی چند سے وہ آنکھوں میں ڈال دی
آنکھوں میں مرچ پڑھتے ہی بے چین ہو گئی
آنکھوں سے وہ اندھا ہوا بھی نائی پھو گئی
بستی میں جب پتا چلا پہرہ ممچ گیا
اب اساہو کار وہ بڑا مجبور تھا ہوا
جو بھی اکڑ تھی ساری ہی اس کی نکل گئی
اس حادثے میں اس کی تو دنیا بدل گئی
بستی کے لوگ ایک دن سارے ہوئے جماع
اندھا وہ ساہو کار بھی آیا تھا اب وہاں
پنچوں کے بیچ بات جو ساری رکھی گئی
سب کو ہی ساہو کار کی غلطی وہاں ملی
وہ نے کہا دیر نہ بلکل بھی اب کرو
غلطی تمہاری تھی سبی معافی طلب کرو
اندھے نے معافی مانگ لی رونے لگا تھا وہ
کیسے کٹے گی زندگی کہنے لگا تھا وہ
آنکھوں سے اندھا ہو کہ میں بیدار بہت ہوں
منجم وہاں پہ آگئی اس نے تھا یہ کہا
ویسے تو میرے ساتھ میں اتنے کیا برا
میری بجا سے آنکھوں سے اندھے ہوئے ہیں یہ
سب کی نظر میں خوبی ہی غصوہ ہوئے ہیں یہ
سب کہیں گے تو شادی رچاؤں گی
اندھے کی دلہن بن کے میں ان کو نبھاؤں گی
بیٹی کی بات سنتے ہی اقرار رو پڑے
بیٹی کی فیصلے پہ وہ بہت دکھی ہوئے
بستی میں چرچہ عام تھا ایک گھوم مچ گئی
انجم خوشی سے اندھے کی دلہنی وہ بن گئی
انجم کو پا کے قرزیاں بے حد وہ خوش ہوا
اس نے کبھی انجم سے تھا شکوا نہیں کیا
دن زندگی کے یوں ہی بتاتی رہی تھی وہ
شہر کا اب علاج کراتی رہی تھی وہ
رب کی عطا سے مل گئی ایک روز تھی خوشی
شہر کی آنکھ کو ملی تھی پھر سے روشنی
اب استاہوکار ہو گیا وہ دیندار تھا
انجم سے کیا کرتا وہ بے حد پیار تھا
جس جس کے گہنے گردی رکھے تھے وہ دے دئیے
قرض خوشی سے سب کے ہی اب معاف کر دئیے
شریعت پہ اب بتانے لگا تھا وہ دن زندگی
اللہ نے دامن میں بھری اس کے تھی خوشی
ایک سال بیٹھتے ہی بسر پیدا ہو گیا
بچے کو پا کے وہ تو مسرعت میں کھو گیا
آنگن میں اس کے اور کئی کولتے کلے
اس کے اندھیرے گھر میں چراغے خوشی جلے
رب کی آتا سے راہ خوشی اس کو مل گئی
کوئی رہی کمینا کلی دل کی کھل گئی
اقرار انہیں بھی چھوڑ دی پینا شراب تھی
وہ بھی خدا کی کرنے لگا اب تھا بندگی
اللہ نے جس کو چاہے
نمازی بنا دیا
بنجر زمیں پہ فیض گل ستاں کلا دیا