نا سنا اس نے
توجہ سے فسانہ
دل کا
عمر گزری ہے مگر درد نا جانا دل کا
ان کے اندازِ کرم
ان پہ وہ آنا دل کا
دل کے ٹکڑے جو کیے تھے نا منظر پوچھو
توڑ کے دل کو میرے کیا بہانا دل کا
ان کے اندازِ کرم
ان پہ وہ آنا دل کا
کر کے مایوس
میرے دل کو ملا کیا ان کو
کر کے مایوس
میرے دل کو ملا کیا ان کو
بھول نا پائے کبھی ٹوٹ وہ سانہ دل کا
ان کے اندازِ کرم ان پہ وہ آنا دل کا
میں پرستوں سے گلا نہ ہے نہ شکوا کوئی
جام پی کے تو نہیں لیا نشانہ دل کا
ان کے اندازِ کرم
ان پہ وہ آنا دل کا
وہ بھی اپنے نہ ہوئے
دل بھی گایا
ہاتھوں سے وہ بھی اپنے نہ ہوئے
آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا
دل کا
ان کے اندازِ کرم
ان پہ وہ آنا دل کا
ان کے اندازِ کرم ان پہ وہ آنا
آنا
دل کا