ایک شور
کالم ہے
مدینے کی گلی ہے
یہ کس کا ہے دروازہ
جہاں آگ لگی ہے
بی بی ہے کوئی
جس پہ وہ
دروازہ گرا ہے
اس چاروں طرف ایک
صدا
گونج رہی ہے
حلمد بابا
جلتے دروازے کے نیچے ہے
تمہاری ظہرا
حلمد بابا
میں گری کا
پہ دے وعدہ گرا ہے مجھ پر
گھر میں داخل ہوئی
عمت یہ اسی پہ چھل کر
ہسلیاں چھوڑ کے دیکھی رہی تم کو صدا
حلمد بابا
بھی نہیں کہے سکتی اتنی زخمی ہوں کہ زندہ بھی نہیں رہے سکتی
ہر گھڑی خون میں تر دہتی ہے اب میری دعا
حلمد بابا
اے کیوں نہیں
آتے بھلا
آپ کہاں ہیں بابا
دیکھو چہرے پہ تمہارا چونکہ لشاں ہے بابا
میں زینب سے چھپایا ہے یہ زخمی پھر آرہا ہے
حلمد بابا
حلمد بابا
حلمد بابا
حلمد بابا
جن میں جوانی چھینی
تلک بیو میں بیٹوں کے سہارے آئی
حال اٹھارہ برس میں ہے
ضعیفہ جیسا
حلمد بابا حلمد بابا حلمد
بابا حلمد بابا
محلو میں ہوئی ہے میرے
اس لیے بابا میرے ہاتھ نہیں چھے سکتے
کچھ نہیں مانگنا بس موت کی کرنی ہے دعا
حلمد بابا
حلمد بابا
قیامت سے نہیں ہے یہ عجبگین بابا
عجبگین بابا
مجھ میں ہی دکھ ہوا ہے میرا محسن بابا
سارے زخموں سے ہے میرے یہی
کتن بڑا
حلمد بابا
حلمد بابا حلمد بابا
حلمد بابا حلمد بابا
ابھی ازلان بکیا سے صدا آتی ہے
سدھیاں ٹوٹی تھی کل آج لحد ٹوٹی ہے
میں نے کس بات کی دی ایلے مدینہ نے سزا
حلمد بابا