اللہم صل على سیدنا و مولانا محمد و علیہ و اصحابه اجمعین
معجزات نبوی
حضور پر نور سید الانبیاء
احمد مجتبا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک
جامع جمعی کمالات انبیاء ہے
امام فخر الدین راضی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں
کہ تمام انبیاء اکرام مراتب و درجات میں ایک دوسرے سے افضل ہیں
اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں
آپ کی ذات گرامی جملہ انبیاء اکرام کے کمالات کی جامع ہونے کے ساتھ ساتھ
ان تمام معجزات سے بھی مرسا ہے جو اللہ تعالی نے سارے انبیاء کو عطا فرمائے تھے
کتب حدیث میں معجزات کا تفصیلی ذکر ہے
محرم سات حجری
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے صحیح مسلم بسراحت مذکور ہے
کہ ہم
غزوات ذات الرقا
اور وادی فہمے تھے
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوح کے لیے پانی تلق فرمایا
حضرت جابر پانی تلاش کرنے کے لیے نکلے
لیکن ایک قطرہ نہ ملا
پھر حضور کے حکم سے جابر اس انساری کے پاس پہنچے
جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پینے کا پانی رکھا کرتے تھے
وہاں بھی دیکھا
تو ایک پرانی مشک شجب کے دہانے پر ایک قطرہ آب نظر آیا
اور بس
حکم دیا وہی لے آؤ
پھر کاٹ کا کٹھیرہ منگایا گیا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا ہاتھ انگلیاں پھیلا کر رکھ دیا
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حکم کے مطابق
بسم اللہ کہہ کر وہ قطرہ آب اس بہر سخا کے دست مبارک پر ڈال دیا
حضرت جابر کی عینی شہادت ہے
کہ انگلیوں میں سے پانی فوارے کی طرح نکلا
پانی نے لکڑی کی کٹھیرے کو بھی چک کر دے دیا
سب کو بلائی گیا
اور سب نے سیرہ بھی حاصل کی
جب حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا لیا
تب بھی وہ کٹھیرہ پانی کا بھرا ہوا تھا
حدیث میں آتا ہے کہ اس غزوے میں چار سو غازی ہمریکاب مصطفوی تھے
صحیح بخاری میں جابر ابن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ماں سے روایت ہے
کہ حدیبیہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوح کیا
پانی ایک کوزے میں تھا
مسلمان اسے دیکھ کر ٹوٹ پڑے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا ہے
لوگوں نے کہا کہ پانی نہ وضوح کے لیے ہے نہ پینے کے لیے ہے
بس یہی کوزہ آب ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھا ہے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کوزے میں ہاتھ رکھ دیا
تب پانی حضور کی انگلیوں میں سے پھوٹ پڑا اور تمام لشکر سیراب ہو گیا
سب نے وضوح بھی کر لیے
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صالح بن ابن جعوت کے سوال پر بتلایا
کہ اس وقت ہم پندرہ سو آدمی تھے
یہ بھی کہا ہے کہ ایک لاگ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی سب کو کفایت کر جاتا
پانی کا دوسرا موجزہ
مقام حدیبیہی کا دوسرا واقعہ بھی جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے
جو صحیح بخاری میں موجود ہے
چونکہ حدیبیہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام ایک ہفتے تک رہا تھا
اس لیے جمع بین الاحادیث کے قائدے سے معلوم ہوتا ہے
کہ واقعہ اول پہلے روز کا ہے
اس کے بعد پانی کی پھر ضرورت لاحق ہوئی
تب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
اس کوئے پر تشریف لے گئے جس کا نام حدیبیہ تھا
اور یہ مقام اسی چاہ کے نام سے معروف تھا
چاہ کا پانی یعنی کوئے کا پانی خوشک ہو چکا تھا
بخاری کی روایت میں ہے
کہ ہم لوگ اس وقت تقریباً پندرہ سو کے قریب تھے
پندرہ سو کے افراد نے اس مقتصر سے پانی سے
اپنی تمام ضروریات پوری کر لی
اور جس کو پانی پینا تھا پانی پی لیا
جس کو برتن بھرنے تھے برتن بھر لیے
جس کو غسل کرنا تھا غسل کر لیا
دراصل یہ موجدہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے
اس موجزے کے مطابق ہے
کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے
ان کی قوم نے کہا تھا
جب یہ وادی تیہ میں تھے
کہ اے موسیٰ یہاں پانی کا ایک قطرہ نہیں
نہ کوئی دریہ ہے نہ سمندر ہے
نہ کوئی آئے ہم کہاں سے پانی حاصل کریں
تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے
ایک پتھر پر لاتھی ماری
اور اس سے پانی کے چشمیں بہنے لگے
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کو یہ موجزہ اس طرح عطا فرمایا گیا
کہ آپ نے اپنے دست مبارک کو
پانی کی کٹھیرے میں رکھا
تو اس سے پانی کی پانچ نہریں جاری ہو گئیں
پانی کے بعد جس شے کا درجہ ہے وہ دودھ ہے
شبہ میراج کی حدیث میں ہے
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے
دودھ اور شراب کے پیالے آسمان پر پیش کیے گئے
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
ان میں سے دودھ کو پسند فرمایا
اور جبلیل امین نے یہ نظارہ دیکھ کر کہا
اخترت الفطرتہ
کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
فطرت کو پسند کیا
اسی لئے اسلام کو بھی دودھ کے ساتھ
تشبیح دی جایا کرتی ہے
انسان کا ہر ایک بچہ دودھ سے پلا ہے
مگر ایک بچہ بھی دنیا میں ایسا نہیں
جس کی رضاعت شراب سے ہوئی ہو
اس سے ثابت ہو جاتا ہے
کہ دودھ فطرت انسانی کا رازدار ہے
حدیث شریف میں ہے
کہ حضرت ابو حریرہ بیان کرتے ہیں
کہ بھوک کے بارے کبھی ایسا ہوتا
کہ میں جگر کو تھام کر زمین پر گر جاتا
کبھی ایسا ہوتا
کہ پیٹ پر پتھر بان لیتا
ایک دن ایسا ہوا
کہ میں سر راہ آ بیٹھا
جہاں سے لوگ آیا جایا کرتے تھے
حضرت ابو بکر آئے
اور میں نے ان سے قرآن کی ایک آیت کی بابت دریافت کیا
میرا مطلب یہ تھا
کہ شاید وہ مجھے کچھ کھلا بھی دیں گے
وہ یوں ہی چلے گئے
پھر عمر آ نکلے
ان سے بھی ایک آیت کا مطلب پوچھا
غرض وہی تھی
کہ کچھ کھانے کو دیں گے
وہ بھی یوں ہی چلے گئے
اتنے میں ابو القاسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے
مجھے دیکھ کر تبستم فرمایا
میرے جی کی بات سمجھ گئے
میرے چہرے کو تار لیا
ارشاد فرمایا
ابو حریرہ ساتھ ساتھ چلے آؤ
میں پیچھے پیچھے ہو لیا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے
وہاں حضور نے پیالے میں دودھ دیکھا
گھر والوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو
وہ شخص کا نام بتلایا
جس نے دودھ کا حدیعہ بھیجا تھا
حضور نے مجھے فرمایا
ابو حریرہ جاؤ اہل سفہ کو بلالاؤ
اہل سفہ وہ لوگ ہوتے تھے
جن کا کوئی گھربار نہ ہوتا تھا
جن کو کسی شخص کا کوئی سہارہ نہ ہوتا تھا
یہ ازیاف الاسلام کہلاتے تھے
یہ اسلام کے مہمان تھے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صیرت پاک یہ تھی
کہ کوئی صدقی کی چیز آتی
تو آپ اصحاب سفہ کو بھیج دیا کرتے تھے
اور حدیعہ آتا تو آپ لے لیا کرتے تھے
حضرت ابو حریرہ کہتے ہیں
کہ میں سمجھا کہ اہل سفہ میں
اس دودھ کی حقیقت کیا ہوگی
یعنی وہ تو سینکڑوں افراد ہیں
اور یہ دودھ مختصرتہ ہے
اگر مجھے ہی مل جاتا تو میرا بھلا ہو جاتا
لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے
اطاعت کے بغیر کچھ چارہ نہ تھا
میں نے سب کو بلا لیا آ کر بیٹھ دے
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
ابو حریرہ یہ پیالہ لو اور سب کو پلاو
میں نے پیالہ لے لیا
ہر ایک کو دیتا جاتا تھا
جب ایک شخص پی کر سیراب ہو جاتا
تب میں دوسرے کو وہی پیالہ دے دیتا تھا
اسی طرح سب سیر ہو گئے
تو میں نے آخر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیالہ پیش کر دیا
حضور نے لے کر اسے دست مبارک پر رکھ لیا
مجھے دیکھا اور مسکر آئے
فرمایا ابو حریرہ اب تو میں رہ گیا
اور یا تو رہ گیا
میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سچ ہے
فرمایا اچھا اب تم پی لو
میں بیٹھ گیا
اور میں نے دودھ پی لیا
فرمایا اور پیو
میں نے اور پیا
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے رہے
پیو آخر میں نے ارز کیا
قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے
کہ اب تو گنجائش بالکل نہیں رہی
فرمایا لاو پیالہ
میں نے پیش کیا
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا شکر کیا
بسم اللہ پڑی اور دودھ پی لیا
تقصیر تعام
اسی طرح تقصیر تعام کا موجزہ ہے
یعنی تھوڑا سا تعام بہت کے لیے کافی ہو جائے
انجیل کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے
کہ اس موجزے کا ظہور
مسیح علیہ السلام سے بھی ہوا تھا
انہوں نے چار روٹیوں
اور تین مچھلیوں سے بہت بڑی جماعت کو سیر کیا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آیات نبوت میں بھی
ایسے واقعات کا ذکر
احادیث سحیہ میں بکسر موجود ہے
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں
کہ واقع خندق کے ایام میں میں نے دیکھا
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹ کو باندھ رکھا ہے
معلوم ہوا
کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھوک کی وجہ سے ایسا کیا ہے
اس حالت میں بھی حضور اہل سفہ کو سورہ نساء کی تعلیم دے رہے تھے
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
اپنے باپ کو یہ واقعہ بتایا
انہوں نے کچھ بزدوری کی
اور جو حاصل کیے
ان کی والدہ نے آدھ سیر جو پیس لیے
روٹی پکائی
کہا اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
اکیلے تشریف لے آئیں تو بخوبی سیر ہو سکتے ہیں
ایک آدھ کوئی اور ساتھ آ گیا
تب بھی کفائت ہوگی
حضرت انس کو ماں باپ نے بھیجا
اچھی طرح سمجھا دیا
کہ لوگوں کے سامنے کچھ نہ کہنا
جب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم
اٹھ کر اندر گھر میں جانے لگیں
تب عرض کر دینا
کہ ہمارے ہاں تشریف لے چلیے
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہنچے
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
جماعت صحابہ کے اندر بیٹھے ہوئے تھے
فرمایا تجھے ابو طلحہ نے بھیجا ہے
انہوں نے عرض کیا کہ ہاں
فرمایا کھانے کے لیے
عرض کی ہاں
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لوگوں چلو ابو طلحہ کے گھر
سب اٹھ کھڑے ہوئے
انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لپک کر باپ کو اطلاع دے دی
اس نے بیوی سے کہا
کہ ام سلیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
تو پوری جماعت کے ساتھ آ رہے ہیں
یہ خاتون بلند پایا
سمجھ گئی کہ کیا ہوگا
بولی اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو
ابو طلحہ نے آگے بڑھ کر بتلا بھی دیا تھا
کہ ایک ٹکیا موجود ہے
صرف ایک روٹی ہے
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
وہاں پہنچ کر فرمایا
کہ گھی کی کپی لے آؤ
کپی سے چند قدر گھی کے نکلے
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
انگشت مبارک سے روٹی چپڑ دی
روٹی پھول لے لگی
برطن سے ہونچی ہو گئی
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
مردانہ مکان کھلوا دیا
روٹی رکھ دی
اور زبان سے اشاعت فرمایا
بسم اللہ اللہم عظم فیہ البرکہ
اے اللہ اس کے اندر برکت پیدا کر دے
دس دس آدمی
روٹی پر بیٹھتے جاتے
اور سیر ہو ہو کر اٹھتے جاتے تھے
اسی طرح
اسی شخصوں نے اس روز کھانا کھا لیا
یہ سرکار دو عالم
صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کی برکت تھی
کہ ایک طرف تو پانی میں آپ نے
اپنا ہاتھ ڈالا
تو نہر جاری ہو گئی
اور روٹی پر ہاتھ رکھا
تو اس میں برکت پیدا ہو گئی
کہ سینکڑوں آدمیوں نے
ایک روٹی سے پیٹ بھر لیا
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے
کہ ان کے والد غزو احب میں شہید ہو گئے تھے
اور بھاری قرضہ چھوڑ گئے تھے
جب کھجور کی فصل آئی
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا
کہ حضور میرے گھر تشریف لے جائیں
تاکہ قرض خواہ حضور کو دیکھ کر
مجھ سے رعایت کریں
فرمایا تم چلو
ہر قسم کی کھجوروں کی ڈھیریاں
الگ الگ لگا دو
میں نے تعمیل کر دی
اتنے میں سرور عالم
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے
حضور نے بڑے ڈھیر کو
تین بار پھر پھر کر دیکھا
اور بعد ازام وہیں بیٹھ گئے
فرمایا قرض خواہوں کو بلا ہو
وہ آ گئے
تو ہر ایک کو ناپ ناپ کر
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم
نے کھجور دینی شروع کی
حتیٰ کہ سب قرضدار نمٹ گئے
اور وہ ڈھیر مجھے جو کا تون نظر آتا تھا
گویا ایک دانہ بھی اس میں سے کم نہیں ہوا تھا
حضرت جابر ارض کرتے ہیں
کہ میں تو اتنے ہی پر خوش تھا
کہ ساری پیداوار قرض خواہ لے لیں
اور مجھے گھر لے جانے کو ایک کھجور بھی نہ ملے
لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
نے سب کو نمٹا دیا
سب کے قرض ادا ہو گئے
اور میری کھجوریں اتنی ہی کی اتنی موجود ہیں
صحیحین میں
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک اور روایت ہے
کہ سب قرضداروں کو چکا دینے کے بعد
پھر ایک یہودی اور آ گیا
اس کا قرض تیس وسق کھجور کا تھا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کہ جو دھیریاں باقی ہیں
انہیں یہودی لے لے
یہودی نے انکار کر دیا
تو صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار ان دھیروں میں سے گزر گئے
پھر حکم دیا کہ یہودی کو ناپ ناپ کر دے دو
چنانچہ اس کے تیس وسق پورے ہو گئے
اور سترہ وسق ابھی اور بھی باقی رہ گئے
عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا
کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم
دھیریوں میں سے ہو کر نکلے تھے
میں تب ہی سمجھ گیا تھا
کہ اللہ تعالیٰ ان میں برکت ڈال دے گا
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے موجزات
نباتات میں بھی اثر انداز ہوتے تھے
حدیث شریف میں ہے
کہ جب مدینہ منورہ میں مسجد نبوی تعمیر کی گئی
تو شروع شروع میں کوئی ممبر نہ تھا
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
خطبے کے وقت ایک کھجور کے تنے کے ساتھ
سہارا لگا کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے
کچھ عرصے کے بعد
تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے
ایک ممبر تیار کرا دیا
وہ ممبر تین زینے کا تھا
یعنی دو زینے اور تیسری نشست
صحیح بخاری میں ہے
کہ جب پہلی دفعہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ممبر پر خطبہ شروع فرمایا
اور وہ کھجور کا تنہ
حضور کی ٹیک لگانے کی عزت سے محروم رہ گیا
تب اس سے آواز آئی
اور گریے کی آواز آئی
وہ رونے لگا
اور چیخوں کی آواز اس سے نکلنے لگی
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں
سمعنا لذالک جزع سوتن کسوت العشار
دس ماہیا حاملہ اوٹنی کیسی آواز
ہم نے اس کی سنی
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
ممبر سے اترے
اس پر دست شفعہ
دفقت رکھا
اور وہ چپ ہو گیا
سعی بخاری کی روایت میں ہے
کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم
نے اسے ممبر کے متصل دفن کر دیا
کتب حدیث میں مروی ہے
کہ یہ موجزہ
اسطن حنانہ کے نام سے مشہور ہے
جس طرح حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم
کے موجزات
پانی دودھ اور نباتات پر
اثر انداز ہوتے تھے
اسی طرح حیوانات پر بھی
آپ کے موجزات اثر انداز ہوتے تھے
سعی مسلم میں
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے
کہ میں ایک غزر میں نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھا
میرا اونٹ راستے میں رک گیا
اور چل نہ سکتا تھا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
مجھے راہ میں مل گئے
پوچھا اونٹ کیسا ہے
میں نے کہا بیمار ہے
تو سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم
نے اونٹ کو ڈانٹا
اور دعا بھی فرمائی
وہ سب سے آگے آگے چلے لگا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
پھر مجھ سے پوچھا
تو میں نے عرض کر دیا
کہ اب وہ اچھا ہے
اور اسے حضور کی برکت کا حصہ مل گیا ہے
یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
صلی اللہ علیہ وسلم
کی موجزات میں سے
وہ چند واقعات تھے
جن کا تعلق
پانی
غزہ
نباتات
اور حیوانات سے ہے
اب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم
نے آنے والے زمانے کے لیے
بعض اطلاعات عطا فرمائی
اور پیشین گوئییں فرمائی
جن میں سے
جہاد بہلی کی ایک اطلاع ہے
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
روایت ہے کہ ایک روز
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ام حرام کے گھر میں آرام فرمایا
جب بیدار ہوئے
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہس رہے تھے
ام حرام نے وجہ پوچھی
فرمایا مجھے میری امت کے وہ غازی دکھلائے گئے ہیں
جو سمندر میں جہاد کے لیے سفر کریں گے
وہ اپنے جہازوں پر
ایسے بیٹھے ہوں گے
جیسے ملوک اپنے اپنے تخت پر
نشست کرتے ہیں
ام حرام نے عرض کی
کہ میرے لیے بھی دعا فرمائیے
کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان میں شامل فرمائے
حضور نے دعا کر دی
اور پھر لیٹ گئے پھر ہستے ہوئے بیدار ہوئے
فرمایا مجھے میری امت کے دوسرے
غازی جہازوں پر سوار ہو کر
جہاد کرنے والے دکھلائے گئے ہیں
ام حرام نے کہا
دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ
مجھے بھی ان میں شامل فرمائے
فرمایا نہیں
تو پہلے لوگوں میں سے ہے
حضرت امیر معاویہ کے زمانے میں
جب عبادہ ابن سامت رضی اللہ تعالی عنہ
بحری جہاد کو گئے
تو یہ ام حرام بھی
اپنے شوہر کے ساتھ گئی تھی
غزوے سے واپسی کے وقت
ام حرام کے لیے سواری لائی گئی
وہ سوار ہونے لگی
تو جانور نے لات ماری
اور ان کا انتقال وہی ہو گیا
صحیح بخاری
صحیح بخاری میں عدی ابن حاتم
تائی رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک روایت ہے
وہ کہتے ہیں
کہ میں حضور سرور عالم
صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں بیٹھا تھا کہ ایک شخص آیا
اور اس نے فاقی کی شکایت
دوسرا آیا
اس نے ڈکیتیوں کی شکایت کی
تو نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کہ اے عدی اگر تمہاری
عمر لمبی ہوئی تو تم دیکھ لو
گے کہ ایک بڑھیا ہیرہ سے
اکیلی چلے گی اور خانہ
کعبہ کا تواف کرے گی وہ
اللہ کے سوا اور کسی سے نہ لڑتی
ہوگی میں نے اپنے دل میں
کہا کہ تہکے ڈکیت
کدھر چلے جائیں گے جنہوں نے
تمام بستیوں کو اجار رکھا ہے
پھر فرمایا
اگر تیری عمر لمبی ہوئی
تو تم کسرہ کے خزانوں
کو جا کھولو گے میں نے پوچھا
کیا کسرہ ابن حرمز
فرمایا ہاں کسرہ ابن حرمز
پھر فرمایا اگر تیری عمر
لمبی ہوئی تو تُو دیکھ لے گا
کہ ایک زکاة کا سونا اور چاندی
لیے ہوئے پھرے گا اور اسے
کوئی نہ ملے گا جو زکاة کا پیسہ
لینے والا ہو
عدی کہتے ہیں میں نے ایسی بڑھیا
کو بھی حج کرتے دیکھ لیا
جو کوفے سے اکیلی حج کو آتی تھی
اور اللہ کے سوا سے کسی اور
کا خوف نہ تھا
اور خزائن کسرہ کی فتح میں تمہیں شامل
تھا تیسری بات بھی
اے لوگو تم دیکھ لوگے
امام بیحقی کہتے ہیں کہ عمر
ابن عبدالعزیز کی سلطنت میں
تیسری بات بھی پوری ہو گئی
کہ زکاة دینے والے کو تلاش سے بھی
کوئی فقیر نہ ملتا تھا اور وہ
اپنے مال گھر واپس لے جایا کرتا تھا
بیحقی
و ابو نعیم نے برا ابن عاذب
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے
کہ خندق کھوچتے ہوئے
ایک بہت بڑا پتھر
اور سخت چٹان نکل آئی
جس پر قدال کا اثر نہ ہوتا تھا
ہم نے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم
سے یہ حال ارز کیا
تو آپ نے پتھر کو دیکھا
قدال کو ہاتھ میں لیا
اور بسم اللہ کہہ کر ضرب لگائی
ایک تہائی پتھر
ٹوٹ گیا اس وقت
حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا اللہ اکبر
اُعطیتُ مفاتیح الشام
مجھے ملک شام کے خزانے
یا کنجیاں عطا کی گئی ہیں
بخدا میں نے وہاں
کی
سرخ سرخ محلات کو ابھی دیکھ لیا ہے
پھر دوسری ضرب لگائی
اور ایک تہائی پتھر
ٹوٹ دیا پھر فرمایا
اللہ اکبر اُعطیتُ مفاتیح
الفارس واللہ انی
لَعُبْسِرُ قَسْرَ الْمَدَائِنِ
الْعَبْيَثِ
مجھے ملک فارس کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں
اور میں اس وقت مدائن کے
سفید محلات کو دیکھ رہا ہوں
پھر اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم
نے تیسری ضرب لگائی
اور سارا پتھر چکنا چور کر دیا
اور فرمایا
اللہ اکبر اُعطیتُ مفاتیح
الْيَمَن
واللہ انی لَعُبْسِرُ
ابواب سُنعَا مِن مَقَانِ السَّاغَ
مجھے ملک
یمن کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں
میں یہاں سے اس وقت
شہر سُنعَا کی دروازوں کو دیکھ رہا ہوں
یہ ارشاد
آپ نے اس وقت فرمایا تھا
جب مدینہ پر کفار کے اساکر
کا حملہ ہو رہا تھا
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم
ہر طرف دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے
ان سے بچاؤ کے لیے
شہر کے گردہ گرد خندق
کھو دی جا رہی تھی
ایسے زوف کی حالت میں
ایسی کمزوری کی حالت میں
اتنے ممالک کی فتوحات کی اطلاع دینا
اللہ کے نبی ہی کا کام ہے
جسے اللہ تعالی نے
حرف بحرف پورا فرمایا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے
فتح مصر کی بھی پیشین گوئی فرمائی
ارشاد فرمایا
تم ان قریب اس ملک کو فتح کر لوگے
جہاں سکہ اقیرات ہے
تم وہاں کے لوگوں سے
بھلائی کرنا کیونکہ
ان کو ذمہ اور رحم کے حقوق حاصل ہیں
پھر ابو ذر سے فرمایا
جب تم دیکھو
کہ وہ شخص ایک ایڈ
برابر کی زمین پر جھگڑ رہا ہے
تب وہاں سے چلے آئی ہو
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی
انہوں نے فتح مصر کو بھی دیکھا
اور وہاں ابو دوباش بھی اختیار کی
اور یہ بھی دیکھا
کہ ربعہ اور عبد الرحمان بن شرجیل
ایڈ برابر زمین کے لیے
جھگڑ رہے ہیں
تب یہ وہاں سے چلے بھی آئے
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ایران کے فتح کی بھی
پیشین گوئی فرمائی
یہ اس وقت جبکہ سراغہ ابن مالک
حضور سرور عالم
صلی اللہ علیہ وسلم
کی گرفتاری کے لیے
دوران حجرت آپ کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا
آپ نے پیچھے مڑ کر دیکھا
تو اس کے اونٹ کے پاؤں
زمین میں دھس گئے
اس نے قرآن ڈالا اور پھر آگے چلا
تین بار ایسا ہوا
پھر آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کی خدمت میں حاضر ہوا
اور معذرت چاہی
کہ میں آپ سے معافی نامہ چاہتا ہوں
مجھے امید ہے کہ ایک وقت
ایسا آئے گا کہ آپ مکہ پر غالب آ جائیں گے
تو سرکار دو عالم
صلی اللہ علیہ وسلم
جو اپنے گھر سے
اپنے ملک سے نکل کر کے
ہجرت فرما رہے تھے
اور بے سرو سامانی کی حالت میں
مدینہ کی طرف جا رہے تھے
آپ نے سراقہ سے فرمایا
کہ اے سراقہ
اس وقت کو یاد کرو
جب تمہارے ہاتھوں میں کسرا کے کنگن ہوں گے
یعنی سرکار دو عالم
صلی اللہ علیہ وسلم معافی نامہ
بھی لکھ رہے ہیں اور یہ بھی فرما رہے ہیں
کہ جب ایران فتح ہوگا
تو سراقہ کے ہاتھ میں سونے کے کنگن
ہوگے فرمایا تیری کیا شان
ہوگی جب تجھے کسرا کے
کنگن پہنائے جائیں گے
بے حقیقی دوسری روایت میں ہے
کہ جب حضرت عمر فاروق
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس
فتح ایران کے مال غنیمت میں کسرا کے کنگن
پہنچے تو انہوں نے سراقہ
بن مالک کو بلایا اور اسے وہ
کنگن پہنائے جو سراقہ کے
بازوں کے اوپر تک پہنچے
تھے اور فرمایا کہ صدق
اللہ و صدق رسولہ
اللہ علیہ اور اللہ کے رسول
نے سچ فرمایا ہے
فاروق عاظم نے کنگن پہنا
کر زبان سے کہا اللہ کا شکر ہے
جس نے کسرا بن حرمز
سے جو اپنے آپ کو
رب الناس کہلاتا تھا یہ کنگن
چھین لیے
بے حقیقی اور حاکم نے ابو حریرہ
اور معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سے اور تبرانی نے
عوف بن مالک اشجائی سے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ
الفاظ لمبی روایت میں بیان کیے ہیں
جن میں ایک جملہ یہ ہے
کہ میری امت میں تہتر فرقے بن جائیں گی
نزول قرآن پاک
کے وقت امت محمدیہ کے جملہ
افراد کا منفردن ومجتمعن
ایک ہی نام تھا اور وہ مسلمان
تھا
کہ قرآن پاک میں ہے
تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام
نے تمہارا نام مسلمان
رکھا ہے
علی مرتضی
رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز
تک یہی واحد اور جامع نام
سب کا معرفہ رہا
یعنی سب اسی نام سے پہچانے جاتے رہے
لیکن خروج اور خوارج
کے بعد نئے نئے فرقے
اور ان فرقوں کے نئے نئے نام
نکلنے شروع ہو گئے
ہر ایک فرقے کو اپنے مختص نام پر ناز ہے
حدیث شریف میں آتا ہے
کہ جب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم
نے یہ فرمایا کہ میری
امت میں تہتر فرقے
ہوں گے جن میں سے ایک فرقہ
ناجی ہوگا اور بہتر ناری ہوں گے
تو صحابہ اکرام نے عرض کیا
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
ناجی ہونے کی
کیا علامت ہوگی
یعنی وہ فرقہ جو ناجی ہوگا جو نجات پائے گا
اس کی کیا علامت ہوگی
تو آپ نے اشارت فرمایا
ما انا علیہ و اصحابی
میں جس طریقے پر ہوں
اور میرے صحابہ جس طریقے پر ہیں
جو فرقہ اس طریقے پر رہے گا
وہ نجات پائے گا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کے مقامات
عالیہ میں سے واقعہ
میراج بھی ہے
چنانچہ ارشاد باری ہے
سبحان
اللذی اصراب
عبدہی لیلا
من المسجد الحرام
الى المسجد اللقص
اللذی بارکنا حولہ
اللذی بارکنا حولہ
لنریہو
من آیاتنا
انہو
هو السمیع البصیر
پاک ہے
وہ ذات
جو اپنے بندے کو راتوں رات
مکہ معظمہ سے
مسجد اقصہ لے گئی
تاکہ
ہم اس کو اپنی نشانیاں دکھائیں
بے شک اللہ سننے والا
اور دیکھنے والا ہے
اس آئے کریمہ میں
سرکار دو عالم
صلی اللہ علیہ وسلم
کے ان مقامات عالیہ کا ذکر فرمایا ہے
جو اللہ تعالی نے
جملہ انبیاء کے مقابلے میں
آپ ہی کو عطا فرمائے ہیں
حق تعالی شانہو نے
سرکار دو عالم
صلی اللہ علیہ وسلم
کو اپنا جلوہ دکھایا
اور بطور خاص اپنے حضور میں بلایا
اور کچھ اس طرح سے بلایا
کہ پہلے آپ کو
مسجد اقصہ کی سیر کرائی
اور مسجد اقصہ میں تمام انبیاء اکرام
کو جمع فرما دیا
حضرت آدم سے لے کر کے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک
تمام انبیاء اکرام مسجد اقصہ میں
موجود ہیں اور جناب نبی اکرام
صلی اللہ علیہ وسلم کی
اقتدا کرنے کے لیے تیار ہیں
یہ نماز کا وقت تھا
امامت کون کرے
تو حضرت جبریل علیہ السلام
نے ممبر پر پہلے
حضرت آدم کو کھڑا کیا
حضرت آدم علیہ السلام نے
اپنے وہ القابات
وہ کمالات وہ اوصاف
اور وہ فضائل بیان کیے جو
اللہ تعالی نے آپ کو عطا فرمائے ہیں
اور کہا کہ اللہ نے مجھے
صفی اللہ کا خطاب دیا ہے
حضرت نو کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہا
کہ مجھے نجی اللہ اور نبی اللہ
کا خطاب ملا ہے
ابراہیم کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہا
کہ مجھے خلیل اللہ کے خطاب سے نوازا گیا ہے
اور پھر
حضرت موسیٰ آئے تو انہوں نے کہا
کہ مجھے قلیم اللہ کہا گیا ہے
اور پھر آخر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام
آئے تو انہوں نے کہا
کہ مجھے روح اللہ کے خطاب سے نوازا گیا ہے
سرکار مدینہ
تاجدار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم
اب ممبر پر تشریف لے گئے
اور آپ نے فرمایا
کہ بے شک آدم صفی اللہ ہیں
بے شک نوح نجی اللہ ہیں
بے شک
ابراہیم خلیل اللہ ہیں
بے شک موسیٰ قلیم اللہ ہیں
بے شک عیسیٰ روح اللہ ہیں
لیکن میں حبیب اللہ ہوں
انا حبیب اللہ ولا فخرہ
اس طرح حضور انور
صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنے جملہ اصاف گنائے
تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
امامت کے منصف پر فائز ہوئے
اور تمام انبیاء کرام
نے آپ کی اقتدا کی
تمام انبیاء کرام نے
اس بات کا اقرار کیا
کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کامل الانبیاء ہیں
خاتم النبیین ہیں
ان کے دور میں اگر ہم ہوتے
تو ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کی اطاعت و اتباع کرتے ہیں
میراج کی دو قسمیں ہیں
صورت میراج
اور حقیقت میراج
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم
مکہ سے مسجد اقصہ
تک تشریف لے گئے
یہ صورت میراج ہیں
اور پھر وہاں سے آسمانوں پر
تشریف لے گئے وہ حقیقت میراج ہیں
چنانچہ حضرت جبریل
ایک زینہ لے کر کے آئے
ایک سواری لے کر کے آئے
جس کو براغ کہا جاتا ہے
بہرحال جو بھی کوئی صورت ہوگی
حضرت جبریل علیہ السلام کی ہمراہ
آپ آسمانوں پر روانہ ہوئے
یہ آسمان وہ آسمان تھے
جو تمام سیاروں سے آگے ہیں
چنانچہ قرآن پاک میں
ارشاد فرمایا گیا ہے
ہم نے آسمان دنیا کو
چراغوں سے آراستہ کیا ہے
یعنی جتنے سیارے اور ستارے ہیں
وہ اس آسمان سے نیچے ہیں
جہاں جناب نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تھے
آپ کی میراج
آپ کی سیر دنیا سے
دنیا کی طرف نہیں تھی
بلکہ دنیا سے آخرت
اور آسمانوں کی طرف تھی
وہ آسمان جو نور کے آسمان ہے
اس سے مراد یہ سیارے
نہیں تھے
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم
پہلے آسمان پر پہنچے
تو دروازہ بند تھا
حضرت جبریل نے دروازہ کھٹ کھٹایا
اندر سے آواز آئی من بالباب
کون ہے دروازے پر
تو جبریل نے کہا
انا جبریل دریافت کیا گیا
آپ کے ساتھ اور کون ہے
تو انہوں نے کہا
معی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
دریافت کیا گیا
کیا بلائے گئے ہیں
آپ نے فرمایا کہ ہاں بلائے گئے ہیں
چنانچہ آپ آسمان اول پر گئے
حضرت
حضرت آدم سے ملاقات ہوئی
پھر دوسرے آسمانوں پر گئے
تو اور دیگر انبیاء اکرام سے ملاقات ہوئی
یہاں تک کہ ساتھ میں آسمان پر پہنچے
تو حضرت ابراہیم
بیت المعمور سے سہارا
اور ٹیک لگائے ہوئے بیٹے تھے
بہرحال آپ
صدرت المنتحہ پہنچے
اور وہاں بارگاہ قدس میں
حاضری ہوئی
کچھ اس طرح سے حاضری ہوئی
کہ اللہ اور اللہ کے بندے کے درمیان
اب کوئی حجاب نہیں تھا
کوئی پردہ نہیں تھا
اللہ اور اللہ کا محبوب
آمنے سامنے تھا
فَأَوْحَا إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا
اَوْحَا کے اندر اس راز کو بیان کیا گیا ہے
کہ اس وقت جو کچھ کہا گیا
وہ کہا گیا
یعنی یہ راز تھے جو اللہ کی طرف سے
محمد الرسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے سامنے
بیان ہوئے اور وہی پر
نماز پنجگانہ فرض کی گئی
لیکن پہلے پچاس وقت کی
نماز تھی آپ لوٹے
تو حضرت موسیٰ نے ٹوکا
اور بار بار آپ بارگاہِ
الٰہی میں پہنچے
یہاں تک کہ پانچ وقت کی نماز رہ گئی
اور ارشاد ہوا کہ اے محمد صلى الله عليه وسلم
ہمارے ہاں جو فیصلہ ہوتا ہے
وہ بدلہ نہیں جاتا
نماز پانچ وقت کی ہوگی
اور ثواب پچاس وقت کا ملے گا
سرکار دو عالم صلى الله عليه وسلم
وہاں سے واپس آئے
تو آپ نے امت کو یہی تحفہ عطا فرمایا
اور اشارت فرمایا
اَسْصَلَاةُ مَعْرَاجُ الْمُؤْمِنِينَ
کہ نماز مومنوں کی میراج ہے
اللہ کے قرب میں پہنچنا ہے
تو نماز کی ذریعے سے یہ تقدم حاصل ہوگا
وَآخِرُ دَعْوَانَانِ الْحَمْدُ بِاللَّهِ