اب تر تھی پزا تیرگی یہ جہل تھی چائی
ناواقفِ اسرارِ محبتِ خدای
ہر ذہن میں وہ بغض و عداوت کا دعا تھا
جاری تھی ہما وفق قبیلوں میں ڈڑائی
وہ رات کے پردے میں دھنٹے ہوئے انجم
دشمن نظر آتا تھا جہاں بائی کب آئی
دبے تھے قدورت کے ہر آئی نائے دل پر
دشوارِ نظر آتے تھے باطل کی صفائی
مختر کو دبا آتے تھے زندہ کی زمین میں
نادان سمجھتے تھے برائی کو بلائی
انسان بکا کرتا تھا انسان کے ہاتھوں
تھی گردن مفلس پھر آباد تہہ گھٹلائی
زیبائشِ محفل تھے کھنکتے ہو بے ساغر
رقصان تھا سر راہ طرف حسن خفائی
محفوظ نہ تھی عفت و عصمت کسی صورت
تھا جہاں بکا بزم میں ہر دست قلائی
انسان کا انسان لگو چوس رگا تھا
کہتے ہیں جسے سود وہ تھی ان کی کمائی
یوں دل میں بسے رہتے تھے افعال قبیحا
جیسے کسی طلاب کے پانی پہ گھکائی
وہ اپنا مددگار سمجھتے تھے بوتوں کو
انسان کے ذہنوں پہ تھی پتر کی خودائی
انسان کے ذہنوں پہ تھی پتر کی خودائی
عزت خداوند کہیں لاکھوں ہاں بلتا
تھے ان کی نگاہوں میں یہی ان کے روای
ناواقف آتا بے تمہاں تم کہو ایک دل
جائز تھی انہیں لوٹ جوا سود قدائی
لایا جو کوئی قافلہ اسباب تجارہ
سب ٹوٹی پڑے اس پہ لوٹے روکی بنائی
وہ جبر کے نغموں سے فضا گونج رہی تھی
مظلوم کی آواز نہ دیتی تھی سنائی
اس طرح جکڑ رکھا تھا زنجیر ستم نے
مشکل تھی در عدل پہ انسان کی رسائی
دیتے تھے عجب طرح غلاموں کو عذیت
تقبات کوئی کہتے تو مرتا تھا بینائی
تھا فخر رعونت میں انہیں ناز بدی پر
بگڑی جو کہی بات تو تلوار اٹھائی
خود اپنی ہی تاریف میں پڑھتے تھے قصیدے
کرتے تھے وڑے فخر سے خود اپنی بڑائی
گفتار میں تلخی تھی تو لہجے میں تقابل
آخر یہ روش ان کی مشیت کو نہ بائی
آخر یہ روش ان کی مشیت کو نہ بائی
آخر یہ روش ان کی مشیت کو نہ بائی
وماں ارسلناکا اللہ
اللہ رحمتللعالمین
عبراء و فقے زہن پہ ایک مطلعہ دلکش
رخشندہ و تابندہ و پر نور و زیائی
بدلی وہ فضا رحمت حق جوش میں آئی
ظلمت میں کرن پوٹی پائے راہ نمائی
منصوب ہوا نام محمد سے وہی نور
تنویر ہدایت مدشکل نظر آئی
چمکا دیا دنیا کو اسی نور مبینے
چھائی ہوئی سب تیر گئی جہل مٹائی
چہروں سے برسنے لگے انوار یقیقے
ایمان سے ہونے لگی قلبوں کی صفائی
بندوں کو خبردار کیا عظمت رب سے
گردن سیتن و جور سے انسان کی چھوڑائی
وہ جس نے یتیموں کو کلجے سے لگایا
دی جس نے غلاموں کو غلامی سے رہائی
بندوں کو جھکایا در معبود پہ جس نے
کوراہ نما جس نے راہ راست دکھائی
انسان کو اخلاق کا خودگر کیا جس نے
وہ حسن جو اُریاں تھا کیا اس کو ردائی
وہ جس نے اجڑتی ہوئی دنیا کو سوارا
وہ جس نے بگڑتی ہوئی تقدیر بنائی
انسان کو آداب تمدن کے سکھائے
کس طرح جیا کرتے ہیں یہ بات بدائی
اس شان سے پیغامِ اخوت دیا جس نے
انسار و مہاجر نظر آنے لگے بائی
تبدیل کیے ذہن برائی کی طرف سے
نفرت رہی باقی نہ آداوت نہ لڑائی
وہ حادیِ کلخت میں رسل شافعِ محشر
حاصل جسے تھا عرشِ معاللہِ رسائی
وہ صاحبِ علطا کو عطا بانیِ اقرام
شرمندہِ احسانِ کرم جس کی خدائی
وہ جس کا ہر ایک قول ہے گنجینہِ حکمت
وہ جس کی ہر ایک بات میں پوشیدہ بلائی
وہ جس کو کہیں سید و محمود و مباشر
وہ پی کرِ عظمت کے جسے زیب بڑائی
یاسی بھی وہ طاہر بھی وہ صادق بھی امی بھی
حیران ہو کیا اس کی کرو مدحہ سرائی
کرتا ہو فدا ختم قسیدے کو دعا پر
اللہ درِ سرفر الدی تقو رسائی
اللہ درِ سرفر دی تقو رسائی
اللہ درِ سرفر دی تقو رسائی
اللہ درِ سرفر دی تقو رسائی
اللہ درِ سرفر دی تقو رسائی