اببہ سے علمدار شہنشاہ وفا ہےرتبہ تو ذرا دیکھو یہ زہرا کی دعا ہےسقائے سکینہ کا لقب اس کو ملا ہےہر دور میں چمکا ہے فقط اس کا ستارہاببہ سہارا ہے وہ سبا سہاراہاتھوں کو اٹھا ہاتھوں کو اٹھااور لگا بس یہ ہنارہاببہ سہارا ہے وہ سبا سہاراکانپیں گے یا دورانجب ابباس چلے گایہ شیر علی کا ہے بھلا کون لڑے گادشمن جو کوئی سامنے آئے گا مرے گاابباس بدل دیتا ہے میدہ کا نظارہابباس سہارا ہے وہ سبا سہاراابباس دلاور کی شجاعتیہ قسم ہےہاں دل پہ بیرے نامِ علم کا رقم ہےغازی کا لگا جب سے میرے گھر پہ علم ہےبدلا ہے اسی روز اسے طوفا کا اشارہابباس سہارا ہے وہ سبا سہارامنظر مجھے یاد آنے لگا کربو بلکادیتے گئے علمدار جو میدان میں آیاچھپے دشا کی سب کا بدن کام رہا تھامشکی زبرہ بچوں نے قیموں سے پکاراابباس سہارا ہے وہ سبا سہاراغازی پہ چلے تیر چھتی مشک سکینہگوڑے سے گرے یاد آئے گابہت آئی حسینہبولیں کہ چچا لوٹ کے آئیں گے کبھی نہشرمندہِ آباس ناب دینا دوبارہابباس سہارا ہے وہ سبا سہاراپہنچے ہیں سرحانے جو علمدار کی سرورکہتے تھے علمدار سے اے میرے دلاوربہت آئی حسینہ بولیں کہ چچا لوٹ کے آئیں گے کبھی نہچچا لوٹ کے آئیں گے کبھی نہ شرمندار کی سرورکہ میں جاؤں گا مولا غازی کا ٹھکانہ ہے یہ دریا کا کنارہغازی کو قضا آگئی دریا کے کنارےشبیرِ علم لے کے جو خیمے کو صدھارےخیموں میں جو آئے تو تڑک کر یہ پکارےزندہ نہ رہا ہائے علمدار ہماراابباس سہارا ہے وہ سبا سہارازی شانی قیامت کی ببا ہائے علمدارآمیر کی یہ زینب کی صدا ہائے علمداراب کون بچائی گردہ ہائے علمداراے بھائی بتا کون بچائی گردہ ہائے علمداراے بھائی بتا کون بچائی گردہ ہائے علمدارابباس سہارا ہے وہ سبا سہاراہاتھوں کو اٹھا اور لگا بس یہ ہنارہابباس سہارا ہے وہ سبا سہاراابباس سہارا ہے وہ سبا سہارا