وعدوں پہ تیرے کر لیا تھا اعتبار
تجھ کو دیا تھا خود پہ اختیار
خاموشیوں میں ہر غم چھپا لیا
تیرے آگے سب کچھ بھولا دیا
ہاں میں غلط تھا تو سہی
جیتا نہیں تجھ سے کبھی
میری اس قیفیت کا انتاظہ تجھ کو نہیں
سجدوں میں مانگا تھا تجھے
سد کے تیرے میں نے دیے
میری وفاؤں کا بھروسہ تجھ کو نہیں
اب کیا فائدہ اب کیا فائدہ اب کیا فائدہ واپس آنے کا
موسم کی طرح جو تو بدل گیا ہوتا پھر کیا میں تنہا رہ گیا
شکویت تو سارے میں نے بلا دیئے خوش رہو تم بس یہ دعا رہے
رستے جدا تم نے کیے روکا تو تم کو نہ نکے
نہ ہی تھا تو برا اور نہ ہی تھا میں غلط
دنیا کے تھے یہ فیصلے ہم دونوں ہی کچھا گئے
شکویت تو اب بھی ان کے نہ ہی ہے کم ہوئے
اب کیا فائدہ اب کیا فائدہ اب کیا فائدہ واپس آنے کا