ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ باتے باتوں میں تقریر اچھی کرو بات اچھی کرو
اور آج کل تو سارے تقریر کر رہے ہیں
ہر مندہ اپنی فیس بک پہ اچھی نصیت کر رہے ہیں
سارے اک دوسرے کو اچھے اچھے میسیج کر رہے ہیں
پر لگتا یوں ہے کار دوسرے کے لئے رہے ہیں
اپنے لئے نہیں
پرنا جتنی اچھی وہ نصیت کر رہا ہوتا ہے
اس پر آدھا بھی عمل کرے تو معاشرے میں خیر پیدا ہو جائے
اللہ والوں سے سیکھیں ان سے تربیت لیں
عملی زندگی کے اندر نفاذ کرے ان چیزوں کا
رب کریم کے بندے سکھاتے تھے حضرت گوث پاک آپ
دن منا رہے ہیں کیا طرز زندگی ہے حضور گوث پاک
آپ کبھی اس پر غور کریں ساری زندگی رب کی مخلوق کے خدمت میں خرچ کر دیں
حضور گوث پاک فرماتے ہیں مجھے پچاس سال ہو گئے دین پڑھتے پڑھاتے
پچاس سال
آپ فرماتے ہیں مجھ سے کوئی نچوڑ پوچھے نہ اخلاقیات کا
تو کسی بھوکے کو کھانا کھلانے سے زیادہ کوئی عمل
ایسا نہیں جس سے اللہ اتنی جلدی راضی ہوتا ہو
اور یہی ہے ذوق عبادت کی انتہا ساغر غم حیات کے ماروں کا احترام کرو
غم حیات کے ماروں کا
لوگوں کو کھانا کھلانے سے بہتر میں نے کسی چیز کو پایا
ایک آدمی اپنا اس کے ملازم نے کہا ہے مجھے پندرہ ہنزار ایڈوانس ہے
یہ تو اسے صبر کا درست دے رہا ہے اسے کہہ رہا ہے خرچے کم کر
وہ کہتا ہے پندرہ ہنزار ایڈوانس جائیے اور میں کٹوا دوں گا استا استا
لیکن اس کے اپنے بچے
وہ روز پانچ ہنزار کے برگر پیزے کھا جاتے ہیں
دوسروں کو وہ سبک دے رہا ہے
ترس گئے لوگ گریبوں کی جھومپنیاں اور سکڑ گئیں
مہنگائی سے اور امیروں کے خرچے اور بڑھ گئے
یہ جو لوگ آپ کو روز آکے ٹی وی پہ مہنگائی کا رونا روتے ہیں نا ان سے
کبھی کھڑا کر کے پوچھو تو سہی چنے کی دال کیا باہو انہیں تو پتہ ہی نہیں
یہ سیاست دان جو روز صرف اور صرف ایک دوسرے کو
زہر کرنے کے لیے ٹیبل ٹا کرتے ہیں ان سے پوچھو
کہ صبح اگر بچوں کے پراتھوں کے لیے گھی
نہ ہو تو ماں ساری داتھ سو نہیں پاتی
ان سے پوچھو
کہ جب فیس دینے کے دن آتے ہیں تو باپ کی حالت کیا ہوتی
ان سے پوچھو انہیں کیا خبر ہو
یہ تو بیٹھے ہیں مزے سے اور جناب کہانیاں کر رہے ہیں
سٹوریاں سنا رہے ہیں
خدا را
اللہ سے ڈرو
اور وہ کرو جو تمہاری ذمہ داری ہے
نہیں ہوتا تو ہٹ جاؤ
پچھو اس وقت سے جب رب کریم تم سے حساب پوچھے
انہیں تکلیف میں مبتلا میں سفر کرتا
رہتا ہوں ایک دن پٹرول نہیں مل رہا تھا
ویسے میرا اپنے آپ سے اور آپ سے سوال ہے کہ یہ جو
رات کو تیسرے دن پٹرول کی قیمت بڑھنی ہوتی ہے اور ٹائم پہ
پٹرول نہیں دیتے وہ حکومت ہوتی ہے کیا عام لوگ ہوتے ہیں
یہ جو سہلاب آیا تھا تو جنہوں نے خیمیں مہنگے کر دیئے تھے یہ کون تھے
دوانیا مہنگی کر دی تھی کون تھے یہ
کسی نے کہا تھا کہ جنہیں آتا نہیں دنیا میں کوئی
فن تم ہو اور بیچ کھاتے ہیں جو بزرگوں کا کفن تم ہو
جو کومیش سے بھی باز نہ آئے
میں سفر پہ جا رہا تھا تو اس دن کہہ رہے
تھے پٹرول پمپس والے کے پندرہ زو کا ملے گا
تو گاڑی کا شیشہ نیچے کیا تو ایک شخص کہہ
رہا تھا پٹرول والے سے ساڈی فوت گی ہو گئی
مجبوری ہے اور وہ رو رہا تھا
کہہ رہا تھا اس طرح کرو جو قیمت پرس میں بڑھنی ہے نا
تم مجھ سے وہ آج لے لو پر پٹرول تو دے دو نا
یہ کون ہیں
یہ کون لوگ ہیں
یہ ہمی ہیں نا
کس نے سخت دل کر دیا ہمارا اتنا
حضور غوث پاک تو فرماتے ہیں پوکوں کو کھانا
کھلانے سے بہتر میں نے کوئی عمل دیکھا
اللہ کے بندوں کو کھانا کھلا اور نبی پاک علیہ السلام تو فرمایا
فرمایا تم میں بہترین مسلمان وہ ہے جو
سلام لینے میں پہل کرے اور کھانا کھلائے
وہ بہترین مسلمان ہیں
لیکن وہ ہماری ہنڈیا حضور نے کیا فرمایا تو فرمایا گوشت پکاؤ نا
تو شوربہ زیادہ کر لیا کرو چھوڑو پڑوسی کو بھی تھوڑا دے دینا
لیکن اب تو پڑوسی سے چھپایا جاتا ہے
ہم کون دے گا پڑوسی
دوسری بات حضرت غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ انہوں نے تشریف لے گئے
فراد کے کنارے
ایک آدمی کو روتے دیکھا
آپ اس سے فرمانے لگیے دیکھو خدمت بھی کرنی ہے تو سٹائل کون سا اختیار
یہ بھی گیاروی ہے اسے بھی ذرا سنو
یہ جو میں بیان کر رہا ہوں یہ بھی گیاروی شریف ہے
اسے بھی سنو یہ بھی غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ انہوں کی بات کر رہا ہوں
حضرت غوث آدم رضی اللہ تعالیٰ انہوں فراد کے
کنارے کڑے ہیں تو ایک آدمی کنارے پر کڑا رو رہا ہے
آپ نے فرمایا کیا ہوا حرص کرنے لگا حضور غریب ہوں مجبور ہوں
ہوں اسی محلے کا کشتی میں بیٹھا تھا اور
ملاح سے میں نے کہا میرے پاس پیسے نہیں ہیں
ادھار کر لے میں دے دوں گا
اس نے کہا نیچے اتر
یہ مفت خوروں کے لئے نہیں بنائی
نیچے اتر ہوتے ہیں ایسے دکاندار
جو امیر کو کہتے ہیں پا جی لے جو آ جانگے پیسے
اور غریب کو کہتے ہیں پہلے پچھلے دے پتہ ہے بندہ تنگ دست ہے
پتہ ہے مجبور ہے
پتہ ہے پریشان ہے لیکن کہتے ہیں پہلے پچھلے لانا
اور امیر آدمی آ جا تو کہتے ہیں
نہیں نہیں آپ نے ٹینشن نہیں لینی آپ کا اپنی دکان ہے آپ کی
کیونکہ پتہ ہے یہ مال دانیس نے تو ادھار کرنے ہی نہیں
ایسی سمجھداری ہے اور ایسا دنیا داری کا صلیقہ سیکھا ہے
حضرت غوث پاک رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیوں کھڑے ہو
حضور اس نے اتار دیا ہے رسوا کیا کہتا
چل اتر جائے یہ مفت خوروں کے لئے نہیں
غوث پاک نے تبکی دی تسلی دی
اس کو مطمئن کیا
اور پھر صرف نیری دعا نہیں کی گھر گئے
سو دینار لائے
اتنی دیر میں ملا دوسری
جانوی سواریاں اتار کے واپس آ گیا تھا حضرت غوث پاک رضی اللہ
انہوں نے نا ایک سو دینار اس کی ہاتھ میں پکڑا کے کہا آج کے بعد کوئی
مجبور آیا نا تو نیچے نہ اتارنا عبدالقادر کے قرائے پہ سفر کرا دینا
اور ختم ہو گئے تو پیسے اور دے دوں
گا ختم ہو گئے تو اور دے دوں گا تھوڑا
سانا زندگی میں احساس پیدا کریں ہمارے بزرگوں کی صحبتیں ان کی
محبتیں ہمارے دلوں کو نرم کرتی ہیں نیرہ کرامات میں الجکار اور نیری
کرامات بیان کر کے کچھ دیر سبحان اللہ کہہ کے اور اونچے نعرے لگا
کے گھروں کو نہ جائیں یہ محافظ کی جو اصل سوغات ہے اسے حاصل کریں
حضرت غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ انہوں اب دیا بھی اور پردہ پوشی
جو بھی آ جائے نہ میرے کراہے پہ سفر کرا دینا بتانا بھی نہ کس نے دیا ہے
اللہ کی اور تیسری بات یہ تھی غوث پاک میں کوشش کرتے تھے
ڈیرہ لگے تو غریب کے گار لگے
غریب کے گار سفر کرتے
تو رستے میں جو غریب ترید مرید ہوتا
اس کے گار ٹھیرتے وہ جتنے تفعہ تعائف
نظرانے لوگ لے کے آتے نہ وہ سارے جاتی دفعہ
اسی غریب کو دے جاتے سارے اسی کو دے
جاتے اسی کو نواز جاتے یہ تریخ دیکھو نا
ایک غریب آدمی نے بادشاہ کی دعوت کر لی بندہ مارا تھا
غریب آدمی تھا اس نے بادشاہ کی دعوت کر لی سادہ آدمی تھا
علاقے میں ظاہر ہے کچھ نہ کچھ حرصت بھی ہوتا ہے
اللہ معاف فرمائے کچھ لوگ اس علاقے سے پہنچ کے جائے
کہنے لگے بادشاہ تو کس کنگلے کے گھارہ آ رہا ہے
ہمارے پاس آ جن کی عویلیاں بڑی ہیں
جن کے سین کشادہ ہیں
جن کے لنگر چلتے ہیں
تو کہاں آ رہا ہے
ادھر نہ جا اور جاتی دفعہ لوگوں کو بھی کہہ
گئے جا رہے ہیں ملاقات کرنے خصوصی ون ٹو ون
اس کے گھر آئے گا نہیں بادشاہ
وہ سادہ آدمی تفقیر منشو اس نے کہا چلو جی
ٹھیک ہے میرے سے بیت بادا تو کیا بادشاہ نے
وہ وہاں چلا گیا جا کے بادشاہ کو بڑا قائل کیا کہ نہ جانا
بادشاہ بھی کوئی درد دل والا تھا اس نے کہا یار
چاہے بندہ جس طرح کیا بھی ہے ہم نے بادا کیا
گو سنا تھا کہ آستان یار دور ہے پر ہم
نے بھی ٹھان لی تھی کہ جانا ضرور ہے
ضرور جانا ہے
اس نے کہا بادا کر لیا لہذا جانا ہی جانا ہے جو مرضی ہو جائے
اب وہ
بندے پریشانوں کے آگے بڑی بڑی ہویلیوں
والے دیکھتے رہ گئے بادشاہ اس کے گھارہ آیا
شورت ہو گئی وہ فلانے کے گھار بادشاہ
ہے اللہ ہو اکبر بادشاہ کچھ دیر رہا
جو اس نے اس کی
توازو کرنی تھی وہ کی بادشاہ جب جانے لگا تو اس درویش نے ایک جملہ بڑا
طگڑا کا
اس غریب آدمی نے ایک بات بڑی طگڑی کی اس نے کہا بادشاہ اللہ
تجھے جزا دے
تُو بادشاہ ہے اور تُو نے بادشاہ ہی رہنا ہے
تُو بادشاہ ہے تُو نے بادشاہ ہی
رہنا ہے لیکن آج یہ جو تُو میرے گھر سے
ہوکے جا رہا نا مجھے بھی تُو نے بادشاہ
ہی بنا دیا ہے یہ تیرا ایک پھیرہ ہے
نا یہ مجھے بھی بادشاہ ہی بنا دیا ہے
چنگے اندے لڑ لگیاں تے میری چولی چپ پھول پہ یہ نا مجھے بھی بادشاہ ہی
تُو نے بنا دیا ہے جب غریب پروری کی جاتی ہے تو غریبوں کو بادشاہ بنایا
جاتا ہے جب غریب طلابہ کی غریب لوگوں
کی غریب انسانوں سے پیار کیا جاتا ہے
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ انہیں اس احساس محرومی سے نکال دیتے میرے
روز پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طریقہ تھا کہ علاقے میں غریب مرید کے
گھر جاتے تھا
تاکہ اس کے اندر سے وہ جو احساس محرومی ہے وہ نکلے یہاں تو
میرے بھائی سگے بھائی کے پاس پیسے آ جائے نا تو اپنے بیٹوں کا رشتہ
غریب بھائی سے نہیں پوچھتا
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật